سورة غافر - آیت 74

مِن دُونِ اللَّهِ ۖ قَالُوا ضَلُّوا عَنَّا بَل لَّمْ نَكُن نَّدْعُو مِن قَبْلُ شَيْئًا ۚ كَذَٰلِكَ يُضِلُّ اللَّهُ الْكَافِرِينَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

وہ جن کو تم شریک بناتے تھے۔ وہ جواب دیں گے کہ وہ ہم سے کھوئے گئے بلکہ ہم تو اس سے پہلے کسی کو نہیں پکارتے تھے، اس طرح ” اللہ“ کافروں کا گمراہ ہونا ثابت کر دے گا

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- کیا وہ آج تمہاری مدد کر سکتے ہیں؟ 2- یعنی پتہ نہیں، کہاں چلے گئے ہیں، وہ ہماری مدد کیا کریں گے؟ 3- اقرار کرنے کے بعد، پھر ان کی عبادت کا ہی انکار کردیں گے۔ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا۔ ﴿وَاللَّهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِينَ﴾ (الأنعام:23) ”اللہ کی قسم! ہم تو کسی کی شریک ٹھہراتے ہی نہیں تھے“۔ کہتے ہیں کہ یہ بتوں کے وجود اور ان کی عبادت کا انکار نہیں ہے بلکہ اس بات کا اعتراف ہے کہ ان کی عبادت باطل تھی کیونکہ وہاں ان پر واضح ہوجائے گا کہ وہ ایسی چیزوں کی عبادت کرتے رہے جو سن سکتی تھیں، نہ دیکھ سکتی تھیں اور نقصان پہنچا سکتی تھیں نہ نفع۔ (فتح القدیر) اور اس کا دوسرا معنی واضح ہے اور یہ کہ وہ شرک کا سرے سے انکار ہی کریں گے۔ 4- یعنی ان مکذبین ہی کی طرح، اللہ تعالیٰ کافروں کو بھی گمراہ کرتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ مسلسل تکذیب اور کفر، یہ ایسی چیزیں ہیں کہ جن سے انسانوں کےدل سیاہ اور زنگ آلودہ ہو جاتے ہیں اور پھر وہ ہمیشہ کے لیے قبول حق کی توفیق سے محروم ہو جاتے ہیں۔