سورة آل عمران - آیت 77

إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَأَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيلًا أُولَٰئِكَ لَا خَلَاقَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ وَلَا يُكَلِّمُهُمُ اللَّهُ وَلَا يَنظُرُ إِلَيْهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

بے شک جو لوگ اللہ تعالیٰ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھوڑی قیمت پر بیچتے ہیں ان کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نہ ان سے بات کرے گا اور نہ ہی ان کی طرف دیکھے گا۔ اور نہ انہیں پاک کرے گا اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہے

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- مذکورہ افرادکے برعکس دوسرے لوگوں کا حال بیان کیا گیا ہے۔ اور یہ دو طرح کے لوگوں کو شامل ہے ایک تو وہ لوگ جو عہد الٰہی اور اپنی قسموں کو پس پشت ڈال کر تھوڑے سے دینی مفادات کے لئے نبی (ﷺ) پر ایمان نہیں لائے۔ دوسرے وہ لوگ ہیں جو جھوٹی قسمیں کھا کر اپنا سودا بیچتے یا کسی کا مال ہڑپ کر جاتے ہیں جیسا کہ احادیث میں وارد ہے۔ مثلاً نبی (ﷺ) نے فرمایا کہ ”جو شخص کسی کا مال ہتھیانے کے لئے جھوٹی قسم کھائے، وہ اللہ سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ اس پر غضب ناک ہوگا“ (صحيح بخاري، كتاب المساقاة، باب الخصومة في البئر والقضاء فيها- مسلم، كتاب الإيمان، باب وعيد من اقتطع حق مسلم...) نیز فرمایا: ”تین آدمیوں سے اللہ تعالیٰ نہ کلام کرے گا، نہ ان کی طرف دیکھے گا، نہ انہیں پاک کرے گا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہوگا، ان میں ایک وہ شخص ہے جو جھوٹی قسم کے ذریعے سے اپنا سودا بیچتا ہے“۔ (صحيح مسلم، كتاب الإيمان ، باب بيان غلظ تحريم إسبال الإزار...) متعدد احادیث میں یہ باتیں بیان کی گئی ہیں۔ (ابن کثیر وفتح القدیر)