سورة فاطر - آیت 18

وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ ۚ وَإِن تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلَىٰ حِمْلِهَا لَا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَىٰ ۗ إِنَّمَا تُنذِرُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُم بِالْغَيْبِ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ ۚ وَمَن تَزَكَّىٰ فَإِنَّمَا يَتَزَكَّىٰ لِنَفْسِهِ ۚ وَإِلَى اللَّهِ الْمَصِيرُ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا، اور اگر کوئی بوجھ اٹھانے والا اپنا بوجھ اٹھانے کے لیے کسی کو کہے گا تو اس کے بوجھ کا ایک معمولی حصہ بھی اٹھانے کے لیے کوئی نہ آئے گا چاہے وہ قریب ترین رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو، آپ صرف انہی لوگوں کو متنبہ کرسکتے ہیں جو اَن دیکھے اپنے رب سے ڈرتے اور نماز قائم کرتے ہیں، جو شخص بھی پاکیزگی اختیار کرتا ہے وہ اپنے لیے ہی کرتا ہے۔ سب کو اللہ کی طرف ہی پلٹ کر جانا ہے

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- ہاں جس نے دوسروں کو گمراہ کیا ہوگا، وہ اپنے گناہوں کے بوجھ کے ساتھ ان کے گناہوں کا بوجھ بھی اٹھائے گا، جیسا کہ آیت ﴿وَلَيَحْمِلُنَّ أَثْقَالَهُمْ وَأَثْقَالا مَعَ أَثْقَالِهِمْ﴾ (العنكبوت: 13) اور حدیث [ مَنْ سَنَّ سُنّةً سَيِّئَةً كَانَ عَلَيْهِ وِزْرُهَا وَوِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ بَعْدِهِ ] (صحيح مسلم ، كتاب الزكاة ، باب الحث على الصدقة) سے واضح ہے لیکن یہ دوسروں کا بوجھ بھی درحقیقت ان کا اپنا ہی بوجھ ہے کہ ان ہی نے ان دوسروں کو گمراہ کیا تھا۔ 2- مُثْقَلَةٌ أَيْ نَفْسٌ مُثْقَلَةٌ، ایسا شخص جو گناہوں کے بوجھ سے لدا ہوگا، وہ اپنا بوجھ اٹھانے کے لئے اپنے رشتے دار کو بھی بلائے گا تو وہ آمادہ نہیں ہوگا۔ 3- یعنی تیرے انذاروتبلیغ کا فائدہ ان ہی لوگوں کو ہوسکتا ہے، گویا تو ان ہی کو ڈراتا ہے، ان کو نہیں جن کوانذار سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا، ﴿إِنَّمَا أَنْتَ مُنْذِرُ مَنْ يَخْشَاهَا﴾ (النازعات: 45) اور ﴿إِنَّمَا تُنْذِرُ مَنِ اتَّبَعَ الذِّكْرَ وَخَشِيَ الرَّحْمَنَ بِالْغَيْبِ﴾ (يٰس: 11)۔ 4- تَطَهُّرٌ اور تَزَكِّي کے معنی ہیں شرک اور فواحش کی آلودگیوں سے پاک ہونا۔