أَفَلَمْ يَرَوْا إِلَىٰ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُم مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ ۚ إِن نَّشَأْ نَخْسِفْ بِهِمُ الْأَرْضَ أَوْ نُسْقِطْ عَلَيْهِمْ كِسَفًا مِّنَ السَّمَاءِ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لِّكُلِّ عَبْدٍ مُّنِيبٍ
کیا انہوں نے آسمان اور زمین کو نہیں دیکھا جو انہیں آگے اور پیچھے سے گھیرے ہوئے ہے، ہم چاہیں تو انہیں زمین میں دھنسا دیں یا آسمان کا ایک ٹکڑا ان پر گرا دیں درحقیقت اس دھمکی میں ہر اس بندے کے لیے جو ” اللہ“ کی طرف رجوع کرنے والا ہے ایک سبق ہے
1- یعنی اس پر غور وفکر نہیں کرتے؟ اللہ تعالیٰ ان کی زجر وتوبیخ کرتے ہوئے فرما رہا ہےکہ آخرت کا یہ انکار، آسمان وزمین کی پیدائش میں غوروفکر نہ کرنے کا نتیجہ ہے، ورنہ جو ذات آسمان جیسی چیز، جس کی بلندی اور وسعت ناقابل بیان ہے اور زمین جیسی چیز، جس کا طول وعرض بھی ناقابل فہم ہے، پیدا کرسکتا ہے۔ اس کے لئے اپنی ہی پیدا کردہ چیز کا دوبارہ پیدا کردینا اور اسے دوبارہ اسی حالت میں لے آنا، جس میں وہ پہلے تھی، کیوں کر ناممکن ہے؟ 2- یعنی یہ آیت دو باتوں پر مشتمل ہے، ایک اللہ کے کمال قدرت کا بیان جو ابھی مذکور ہوا، دوسری، کفار کے لئے تنبیہ وتہدید، کہ جو اللہ آسمان وزمین کی تخلیق پر اس طرح قادر ہے کہ ان پر اور ان کے مابین ہر چیز پر اس کا تصرف اور غلبہ ہے، وہ جب چاہے ان پر اپنا عذاب بھیج کر ان کو تباہ کرسکتا ہے۔ زمین میں دھنسا کر بھی، جس طرح قارون کو دھنسایا یا آسمان کے ٹکڑے گرا کر، جس طرح اصحاب الایکہ کو ہلاک کیا گیا۔