سورة الأحزاب - آیت 6

النَّبِيُّ أَوْلَىٰ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ ۖ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ ۗ وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَىٰ بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللَّهِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ إِلَّا أَن تَفْعَلُوا إِلَىٰ أَوْلِيَائِكُم مَّعْرُوفًا ۚ كَانَ ذَٰلِكَ فِي الْكِتَابِ مَسْطُورًا

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

بلاشبہ نبی اہل ایمان کے لیے ان کی اپنی ذات پر مقدّم ہے اور نبی کی بیویاں ان کی مائیں ہیں، مگر ” اللہ“ کی کتاب کے مطابق عام مومنین ومہاجرین کی نسبت ان کے رشتہ دار ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں، البتہ اپنے رفیقوں کے ساتھ تم کوئی بھلائی کرنا چاہو تو کرسکتے ہو۔ یہ حکم کتاب اللہ میں لکھا ہوا ہے

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- نبی (ﷺ) اپنی امت کے لئے جتنے شفیق اور خیر خواہ تھے، محتاج وضاحت نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ (ﷺ) کی اس شفقت اور خیر خواہی کو دیکھتے ہوئے اس آیت میں آپ (ﷺ) کو مومنوں کے اپنے نفسوں سے بھی زیادہ حق دار، آپ (ﷺ) کی محبت کو دیگر تمام محبتوں سے فائق تر اور آپ (ﷺ) کے حکم کو اپنی تمام خواہشات سے اہم تر قرار دیا ہے۔ اس لئے مومنوں کے لئے ضروری ہے کہ آپ (ﷺ) ان کے جن مالوں کا مطالبہ۔ اللہ کے لئے کریں، وہ آپ (ﷺ) پر نچھاور کر دیں چاہے انہیں خود کتنی ہی ضرورت ہو، آپ (ﷺ) سے اپنے نفسوں سے بھی زیادہ محبت کریں۔ (جیسے حضرت عمر ! کا واقعہ ہے) آپ (ﷺ) کے حکم کو سب پر مقدم اور آپ (ﷺ) کی اطاعت کو سب سے اہم سمجھیں۔ جب تک یہ خود سپردگی نہیں ہوگی ﴿فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ﴾ (النساء: 65) کے مطابق آدمی مومن نہیں ہوگا۔ اسی طرح جب تک آپ کی محبت تمام محبتوں پر غالب نہیں ہوگی [ لا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِه ] . کی رو سے مومن نہیں، ٹھیک اسی طرح اطاعت رسول (ﷺ) میں کوتاہی بھی [ لا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى يَكُونَ هَوَاهُ تَبَعًا لِمَا جِئْتُ بِهِ ] کا مصداق بنا دے گی۔ 2- یعنی احترام وتکریم میں اور ان سے نکاح نہ کرنے میں۔ مومن مردوں اور مومن عورتوں کی مائیں بھی ہیں۔ 3- یعنی اب مہاجرت، اخوت اور موالات کی وجہ سے وراثت نہیں ہوگی۔ اب وراثت صرف قریبی رشتہ کی بنیاد پر ہوگی۔ 4- ہاں تم غیر رشتے داروں کے لئے احسان اور بر وصلہ کا معاملہ کر سکتے ہو، نیز ان کے لئے ایک تہائی مال میں سے وصیت بھی کر سکتے ہو۔ 5- یعنی لوح محفوظ میں اصل حکم یہی ہے، گو عارضی طور پر مصلحتاً دوسروں کو بھی وارث قرار دے دیا گیا تھا، لیکن اللہ کے علم میں تھا کہ یہ منسوخ کر دیا جائے گا۔ چنانچہ اسے منسوخ کرکے پہلا حکم بحال کر دیا گیا ہے۔