سورة آل عمران - آیت 61

فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

جو شخص آپ کے پاس علم آجانے کے بعد بھی اس میں جھگڑا کرے تو کہہ دو آؤ ہم تم اپنے اپنے بیٹوں اور اپنی اپنی عورتوں کو لے آئیں اور خود بھی آ کر ہم دعا کریں کہ جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ہو

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- یہ آیت مباہلہ کہلاتی ہے۔ مباہلہ کے معنی ہیں دو فریق کا ایک دوسرے پر لعنت یعنی بددعا کرنا۔ مطلب یہ ہے کہ جب دو فریقوں میں کسی معاملے کے حق یا باطل ہونے میں اختلاف ونزاع ہو اور دلائل سے وہ ختم ہوتا نظر نہ آتا ہو تو دونوں بارگاہ الہیٰ میں یہ دعا کریں کہ یااللہ ہم دونوں میں سے جو جھوٹا ہے، اس پر لعنت فرما۔ اس کا مختصر پس منظر یہ ہے کہ 9 ہجری میں نجران سے عیسائیوں کا ایک وفد نبی (ﷺ) کی خدمت میں حاضر ہوا اور حضرت عیسیٰ (عليه السلام) کے بارے میں وہ جو غلو آمیز عقائد رکھتے تھے اس پر بحث ومناظرہ کرنے لگا۔ بالآخر یہ آیت نازل ہوئی اور نبی (ﷺ) نے انہیں مباہلہ کی دعوت دی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت فاطمہ اور حضرت حسن وحسین (رضی الله عنہم) کو بھی ساتھ لیا، اور عیسائیوں سے کہا کہ تم بھی اپنے اہل وعیال کو بلالو اور پھر مل کر جھوٹے پر لعنت کی بددعا کریں۔ عیسائیوں نے باہم مشورہ کے بعد مباہلہ کرنے سے گریز کیا اور پیش کش کی کہ آپ ہم سے جو چاہتے ہیں ہم دینے کے لئے تیار ہیں، چنانچہ نبی (ﷺ) نے ان پر جزیہ مقرر فرما دیا جس کی وصولی کے لئے آپ (ﷺ) نے حضرت ابوعبیدہ بن جراح (رضي اللّٰه عنه) کو، جنہیں آپ (ﷺ) نے امین امت کا خطاب عنایت فرمایا تھا، ان کے ساتھ بھیجا (ملخص از تفسیر ابن کثیر وفتح القدیر وغیرہ) اس سے اگلی آیت میں اہل کتاب (یہودیوں اور عیسائیوں) کو دعوت توحید دی جا رہی ہے۔