سورة القصص - آیت 34

وَأَخِي هَارُونُ هُوَ أَفْصَحُ مِنِّي لِسَانًا فَأَرْسِلْهُ مَعِيَ رِدْءًا يُصَدِّقُنِي ۖ إِنِّي أَخَافُ أَن يُكَذِّبُونِ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اور میرا بھائی ہارون مجھ سے زیادہ فصیح زبان رکھنے والا ہے اسے میرے ساتھ مددگار کے طور پر بھیجیں تاکہ میری تائید کرے مجھے خوف ہے کہ وہ لوگ مجھے جھٹلائیں گے۔ (٣٤)

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- اسرائیلی روایات کی رو سے حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کی زبان میں لکنت تھی ، جس کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کے سامنے آگ کا انگارہ اور کھجور یا موتی رکھے گئے تو آپ نے انگارہ اٹھا کر منہ میں رکھ لیا تھا جس سے آپ کی زبان جل گئی۔ یہ وجہ صحیح ہے یا نہیں۔ تاہم قرآن کریم کی اس نص سے یہ تو ثابت ہے کہ حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کے مقابلے میں حضرت ہارون (عليہ السلام) فصیح اللسان تھے اور حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کی زبان میں گرہ تھی۔ جس کے کھولنے کی دعا انہوں نے نبوت سے سرفراز ہونے کے بعد کی۔ رِدْءًا کے معنی ہیں معین، مددگار، تقویت پہنچانے والا۔ یعنی ہارون (عليہ السلام) اپنی فصاحت لسانی سے مجھے مدد اور تقویت پہنچائیں گے۔