وَأَوْحَيْنَا إِلَىٰ أُمِّ مُوسَىٰ أَنْ أَرْضِعِيهِ ۖ فَإِذَا خِفْتِ عَلَيْهِ فَأَلْقِيهِ فِي الْيَمِّ وَلَا تَخَافِي وَلَا تَحْزَنِي ۖ إِنَّا رَادُّوهُ إِلَيْكِ وَجَاعِلُوهُ مِنَ الْمُرْسَلِينَ
” ہم نے موسیٰ کی والدہ کو وحی کی کہ وہ موسیٰ کو دودھ پلائے۔ جب تجھے موسیٰ کی جان کا خطرہ محسوس ہو تو اسے دریا میں ڈال دے۔ خوف اور غم نہ کر ہم موسیٰ تیرے پاس لے آئیں گے اور اس کو پیغمبروں میں شامل فرمایں گے۔“ (٧)
1- وحی سے مراد یہاں دل میں بات ڈالنا ہے، وہ وحی نہیں ہے ، جو انبیا پر فرشتے کے ذریعے سے نازل کی جاتی تھی اور اگر فرشتے کے ذریعے سے بھی آئی ہو، تب بھی اس ایک وحی سے ام موسیٰ (عليہ السلام) کا نبی ہونا ثابت نہیں ہوتا، کیونکہ فرشتے بعض دفعہ عام انسانوں کے پاس بھی آجاتے ہیں۔ جیسے حدیث میں اقرع، ابرص اور اعمی کے پاس فرشتوں کا آنا ثابت ہے۔ (متفق علیہ، بخاری، کتاب احادیث الانبیاء) 2- یعنی دریا میں ڈوب جانے یا ضائع ہو جانے سے نہ ڈرنا اور اس کی جدائی کا غم نہ کرنا۔ 3- یعنی ایسے طریقے سے کہ جس سے اس کی نجات یقینی ہو، کہتے ہیں کہ جب قتل اولاد کا یہ سلسلہ زیادہ ہوا تو فرعون کی قوم کو خطرہ لاحق ہوا کہ کہیں بنی اسرائیل کی نسل ہی ختم نہ ہو جائے اور پھر مشقت والے کام ہمیں نہ کرنے پڑیں۔ اس اندیشے کا ذکر انہوں نے فرعون سے کیا، جس پر نیا حکم جاری کر دیا گیا کہ ایک سال بچے قتل کئے اور ایک سال چھوڑ دیئے جائیں۔ حضرت ہارون (عليہ السلام) اس سال پیدا ہوئے جس میں بچے قتل نہیں کیے جاتے تھے، جب کہ موسیٰ (عليہ السلام) قتل والے سال میں پیدا ہوئے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی حفاظت کا سروسامان اس طرح پیدا فرمایا کہ ایک تو ان کی والدہ پر حمل کے آثار اس طرح ظاہر نہیں فرمائے، جس سے وہ فرعون کی چھوڑی ہوئی دائیوں کی نگاہ میں آجائیں۔ اس لیے ولادت کا مرحلہ تو خاموشی کے ساتھ ہوگیا اور یہ واقعہ حکومت کے منصوبہ بندوں کے علم میں نہیں آیا، لیکن ولادت کے بعد قتل کا اندیشہ موجود تھا، جس کا حل خود اللہ تعالیٰ نے وحی والقا کے ذریعے سے موسیٰ (عليہ السلام) کی ماں کو سمجھا دیا۔ چنانچہ انہوں نے اسے تابوت میں لٹا کر دریائے نیل میں ڈال دیا۔ (ابن کثیر)