سورة النمل - آیت 65

قُل لَّا يَعْلَمُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّهُ ۚ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” ان سے فرمائیں کہ اللہ کے سوا آسمانوں اور زمین کا کوئی غیب نہیں جانتا۔ فوت ہونے والے نہیں جانتے کہ وہ کب اٹھائے جائیں گے۔ (٦٥)

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- یعنی جس طرح مذکورہ معاملات میں اللہ تعالیٰ متفرد ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔ اسی طرح غیب کے علم میں بھی وہ متفرد ہے۔ اس کے سوا کوئی عالم الغیب نہیں۔ نبیوں اور رسولوں کو بھی اتنا ہی علم ہوتا ہے جتنا اللہ تعالیٰ وحی والہام کے ذریعے سے انہیں بتلا دیتا ہے اور جو علم کسی بتلانے سے حاصل ہو، اس کے عالم کو عالم الغیب نہیں کہا جاتا۔ عالم الغیب تو وہ ہے جو بغیر کسی واسطے اور ذریعے کے ذاتی طور پر ہر چیز کا علم رکھے، ہر حقیقت سے باخبر ہو اور مخفی سے مخفی چیز بھی اس کے دائرہ علم سے باہر نہ ہو۔ یہ صفت صرف اور صرف اللہ کی ہے اس لیے صرف وہی عالم الغیب ہے۔ اس کے سوا کائنات میں کوئی عالم الغیب نہیں۔ حضرت عائشہ (رضی الله عنها) فرماتی ہیں کہ جو شخص یہ گمان رکھتا ہے کہ نبی (ﷺ) آئندہ کل کو پیش آنے والے حالات کا علم رکھتے ہیں، اس نے اللہ پر بہت بڑا بہتان باندھا اس لیے کہ وہ تو فرما رہا ہے کہ آسمان وزمین میں غیب کا علم صرف اللہ کو ہے۔ (صحيح بخاری نمبر 48 55 ، صحيح مسلم نمبر 287 الترمذی نمبر3068) حضرت قتادہ (رضی الله عنہ) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ستارے تین مقصد کے لیے بنائے ہیں۔ آسمان کی زینت، رہنمائی کا ذریعہ اور شیطان کو سنگسار کرنا۔ لیکن اللہ کے احکام سے بے خبر لوگوں نے ان سے غیب کا علم حاصل کرنے (کہانت) کا ڈھونگ رچا لیا ہے۔ مثلاً کہتے ہیں جو فلاں فلاں ستارے کے وقت نکاح کرے گا تو یہ یہ ہوگا فلاں فلاں ستارے کے وقت سفر کرے گا تو ایسا ایسا ہوگا، فلاں فلاں ستارے کے وقت پیدا ہوگا تو ایسا ایسا ہوگا وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب ڈھکوسلے ہیں۔ ان کے قیاسات کے خلاف اکثر ہوتا رہتا ہے۔ ستاروں، پرندوں اور جانوروں سے غیب کا علم کس طرح حاصل ہوسکتا ہے؟ جب کہ اللہ کا فیصلہ تو یہ ہے کہ آسمان وزمین میں اللہ کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا۔ (ابن کثیر)