قَالَ عِفْرِيتٌ مِّنَ الْجِنِّ أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَن تَقُومَ مِن مَّقَامِكَ ۖ وَإِنِّي عَلَيْهِ لَقَوِيٌّ أَمِينٌ
جنوں میں سے ایک قوی ہیکل نے عرض کیا کہ میں اسے لاؤنگا قبل اس کے کہ آپ اپنی نشست گاہ سے اٹھیں۔ میں اس کی طاقت رکھتاہوں اور امانتدار ہوں۔“ (٣٩)
1- اس سے وہ مجلس مراد ہے، جو مقدمات کی سماعت کے لیے حضرت سلیمان (عليہ السلام) صبح سے نصف النہار تک منعقد فرماتے تھے۔ 2- اس سےمعلوم ہوا کہ وہ یقیناً ایک جن ہی تھا جنہیں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے مقابلے میں غیر معمولی قوتوں سے نوازا ہے . کیونکہ کسی انسان کے لیے چاہے وہ کتنا ہی زور آور ہو، یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ بیت المقدس سے مآرب یمن (سبا) جائے اور پھر وہاں سے تخت شاہی اٹھالائے۔ اور ڈیڑھ ہزار میل کا یہ فاصلہ جسے دو طرفہ شمار کیا جائے تو تین ہزار میل بنتا ہے، 4،3 گھنٹے میں طے کرلے۔ ایک طاقت ور سے طاقت ور انسان بھی اول تو اتنے بڑے تخت کو اٹھا ہی نہیں سکتا اور اگر وہ مختلف لوگوں یا چیزوں کا سہارا لے کر اٹھوا بھی لے تو اتنی قلیل مدت میں اتنا سفر کیوں کر ممکن ہے۔ 3- یعنی میں اسے اٹھا کر لا بھی سکتا ہوں اور اس کی کسی چیز میں ہیرا پھیری بھی نہیں کروں گا۔