سورة البقرة - آیت 267

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنفِقُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُم مِّنَ الْأَرْضِ ۖ وَلَا تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنفِقُونَ وَلَسْتُم بِآخِذِيهِ إِلَّا أَن تُغْمِضُوا فِيهِ ۚ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اے ایمان والو! اپنی پاک کمائی سے اور جو کچھ ہم نے تمہارے لیے زمین میں سے پیدا کیا ہے اس سے خرچ کرو۔ ان میں سے گندی چیزوں کے خرچ کرنے کا ارادہ نہ کرو جسے تم خود بھی چشم پوشی کرنے کے سوا اسےلینے کے لیے تیار نہیں ہو۔ اور جان لو کہ اللہ تعالیٰ بڑابے پروا اور نہایت قابل تعریف ہے

تفسیر مکہ - حافظ صلاح الدین یوسف حافظ

* صدقے کی قبولیت کے لئے جس طرح ضروری ہے کہ من واذی اور ریاکاری سے پاک ہو (جیسا کہ گذشتہ آیات میں بتایا گیا ہے) اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ وہ حلال اور پاکیزہ کمائی سے ہو۔چاہے وہ کاروبار (تجارت وصنعت) کے ذریعے سے ہو یا فصل اور باغات کی پیداوار سے۔ اور یہ جو فرمایا کہ خبیث چیزوں کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا قصد مت کرو)۔ تو خبیث سے ایک تو وہ چیزیں مراد ہیں جو غلط کمائی سے ہوں۔ اللہ تعالیٰ اسے قبول نہیں فرماتا۔ حدیث میں ہے: [ إنَّ اللهَ طَيِّبٌ لا يَقْبَلُ إِلا طَيِّبا ]، ”اللہ تعالیٰ پاک ہے، پاک (حلال) چیز ہی قبول فرماتا ہے۔“ دوسرے خبیث کے معنی ردی اور نکمی چیز کے ہیں، ردی چیزیں بھی اللہ کی راہ میں خرچ نہ کی جائیں، جیسا کہ آیت ﴿لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ﴾ کا بھی مفاد ہے۔ اس کی شان نزول کی روایت میں بتلایا گیا ہے کہ بعض انصار مدینہ خراب اور نکمی کھجوریں بطور صدقہ مسجد میں دے جاتے، جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (فتح القدیر۔ بحوالہ ترمذی وابن ماجہ وغیرہ )۔ ** یعنی جس طرح تم خود ردی چیزیں لینا پسند نہیں کرتے، اسی طرح اللہ کی راہ میں بھی اچھی چیز ہی خرچ کرو۔