سورة الحج - آیت 78

وَجَاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهَادِهِ ۚ هُوَ اجْتَبَاكُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ ۚ مِّلَّةَ أَبِيكُمْ إِبْرَاهِيمَ ۚ هُوَ سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمِينَ مِن قَبْلُ وَفِي هَٰذَا لِيَكُونَ الرَّسُولُ شَهِيدًا عَلَيْكُمْ وَتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ ۚ فَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَاعْتَصِمُوا بِاللَّهِ هُوَ مَوْلَاكُمْ ۖ فَنِعْمَ الْمَوْلَىٰ وَنِعْمَ النَّصِيرُ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اللہ کی راہ میں جہاد کرو جیسا کہ جہاد کرنے کا حق ہے اس نے تمہیں اپنے کام کے لیے چن لیا ہے اور دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی اپنے باپ ابراہیم کی ملت پر قائم ہوجاؤ۔ اللہ نے پہلے بھی تمہارا نام ” مسلم“ رکھا تھا اور قرآن میں بھی تاکہ رسول تم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر گواہ پس نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو اور اللہ سے وابستہ رہو وہ تمہارا مولیٰ ہے وہ بہت ہی اچھا مولیٰ اور بہت ہی اچھا مددگارہے۔“ (٧٨)

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- اس جہاد سے مراد بعض نے وہ جہاد اکبر لیا ہے جو اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے کفار ومشرکین سے کیا جاتا ہے اور بعض نے ادائے امر الٰہی کی بجاآوری، کہ اس میں بھی نفس امارہ اور شیطان کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔ اور بعض نے ہر وہ کوشش مراد لی ہے جو حق اور صداقت کے غلبے اور باطل کی سرکوبی اور مغلوبیت کے لئے کی جائے۔ 2- یعنی ایسا حکم نہیں دیا گیا جس کا متحمل نفس انسانی نہ ہو، (ورنہ تھوڑی بہت محنت و مشقت تو ہر کام میں ہی اٹھانی پڑتی ہے) بلکہ پچھلی شریعتوں کے بعض سخت احکام بھی اس نے منسوخ کر دیئے علاوہ ازیں بہت سی آسانیاں مسلمانوں کو عطا کر دیں جو پچھلی شریعتوں میں نہیں تھیں۔ 3- عرب حضرت اسماعیل (عليہ السلام) کی اولاد سے تھے، اس اعتبار سے حضرت ابراہیم (عليہ السلام) عربوں کے باپ تھے اور غیر عرب بھی حضرت ابراہیم (عليہ السلام) کا ایک بزرگ شخصیت کے طور پر اسی طرح احترام کرتے تھے، جس طرح بیٹے باپ کا احترام کرتے ہیں، اس لئے وہ تمام ہی لوگوں کے باپ تھے، علاوہ ازیں پیغمبر اسلام کے (عرب ہونے کے ناطے سے) حضرت ابراہیم (عليہ السلام) باپ تھے، اس لئے امت محمدیہ کے بھی باپ ہوئے، اس لئے کہا گیا، یہ دین اسلام، جسے اللہ نے تمہارے لئے پسند کیا ہے، تمہارے باپ ابراہیم (عليہ السلام) کا دین ہے، اسی کی پیروی کرو۔ 4- هو کا مرجع بعض کے نزدیک حضرت ابراہیم (عليہ السلام) ہیں یعنی نزول قرآن سے پہلے تمہارا نام مسلم بھی حضرت ابراہیم (عليہ السلام) ہی نے رکھا ہے اور بعض کے نزدیک، مرجع اللہ تعالٰی ہے۔ یعنی اس نے تمہارا نام مسلم رکھا ہے۔ 5- یہ گواہی، قیامت والے دن ہوگی، جیسا کہ حدیث میں ہے۔ ملاحظہ ہو سورہ بقرہ، آیت 143 کا حاشیہ۔