سورة الحج - آیت 60

ذَٰلِكَ وَمَنْ عَاقَبَ بِمِثْلِ مَا عُوقِبَ بِهِ ثُمَّ بُغِيَ عَلَيْهِ لَيَنصُرَنَّهُ اللَّهُ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَعَفُوٌّ غَفُورٌ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” یہ ہے ان کا انجام اور جو بدلہ لے ویسا ہی جیسا اس کے ساتھ کیا گیا ہے اور پھر اس پر زیادتی بھی کی گئی ہو تو اللہ اس کی مدد ضرور کرے گا اللہ معاف کرنے والا او درگزر کرنے والا ہے۔“ (٦٠)

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- یعنی یہ کہ مہاجرین سے بطور خاص شہادت یا طبعی موت پر ہم نے جو وعدہ کیا ہے، وہ ضرور پورا ہوگا۔ 2- عقوبت اس سزا یا بدلے کو کہتے ہیں جو کسی فعل کی جزا ہو۔ مطلب یہ کہ کسی نے اگر کسی کے ساتھ کوئی زیادتی کی ہے تو جس سے زیادتی کی گئی ہے، اسے بقدر زیادتی بدلہ لینے کا حق ہے۔ لیکن اگر بدلہ لینے کے بعد، جب کہ ظالم اور مظلوم دونوں برابر سرابر ہو چکے ہوں، ظالم، مظلوم پھر زیادتی کرے تو اللہ تعالٰی اس مظلوم کی ضرور مدد فرماتا ہے۔ یعنی یہ شبہ نہ ہو کہ مظلوم نے معاف کر دینے کی بجائے بدلہ لے کر غلط کام کیا ہے، نہیں، بلکہ اس کی بھی اجازت اللہ ہی نے دی ہے، اس لئے آئندہ بھی اللہ کی مدد کا مستحق رہے گا۔ 3- اس میں پھر معاف کر دینے کی ترغیب دی گئی ہے کہ اللہ درگزر کرنے والا ہے۔ تم بھی درگزر سے کام لو۔ ایک دوسرے معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ بدلہ لینے میں۔ جو بقدر ظلم ظالم ہوگا۔ جتنا ظلم کیا جائے گا، اس کی اجازت چونکہ اللہ کی طرف سے ہے، اس لئے اس پر مؤاخذہ نہیں ہوگا، بلکہ وہ معاف ہے۔ بلکہ اسے ظلم اور سیئہ بطور مشاکلت کے کہا جاتا ہے، ورنہ انتقام یا بدلہ سرے سے ظلم یا سیئہ ہی نہیں ہے۔