إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ الَّذِي جَعَلْنَاهُ لِلنَّاسِ سَوَاءً الْعَاكِفُ فِيهِ وَالْبَادِ ۚ وَمَن يُرِدْ فِيهِ بِإِلْحَادٍ بِظُلْمٍ نُّذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ
” جن لوگوں نے کفر کیا اور جو اللہ کے راستے سے روکتے ہیں اور اس مسجد حرام کی طرف آنے میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ جسے ہم نے سب لوگوں کے لیے بنایا ہے جس میں مقامی اور باہر سے آنے والوں کے حقوق برابر ہیں۔ مسجد میں جو بھی گمراہی اور ظلم کا راستہ اختیار کرے گا اسے ہم دردناک عذاب دیں گے۔“ (٢٥)
1- روکنے والوں سے مراد کفار مکہ ہیں جنہوں نے 6 ہجری میں مسلمانوں کو مکہ جاکر عمرہ کرنے سے روک دیا تھا، اور مسلمانوں کو حدیبیہ سے واپس آنا پڑا تھا۔ 2- اس میں اختلاف ہے کہ مسجد حرام سے مراد خاص مسجد (خانہ کعبہ) ہی ہے یا پورا حرم مکہ۔ کیونکہ قرآن میں بعض جگہ پورے حرم مکہ کے لیے بھی مسجد حرام کا لفظ بولا گیا ہے۔، یعنی جزء بول کر کل مراد لیا گیا ہے۔ جہاں تک خاص مسجد حرام کا تعلق ہے، اس کی بابت تو یہ بات متفقہ ہے کہ اس میں مقیم وغیر مقیم ملکی اور آفاقی سب کا حصہ مساوی ہے یعنی بلا تخصیص وتفریق ہر شخص رات اور دن کے کسی بھی حصے میں عبادت کرسکتا ہے۔ کسی کے لئے بھی کسی مسلمان کو عبادت سے روکنے کی اجازت نہیں ہے۔ البتہ جن علما نے مسجد حرام سے مراد پورا حرم لیا ہے۔ ان کے ایک گروہ کی رائے یہ ہے کہ پورا حرم مکی سب مسلمانوں کے لئے یکساں حیثیت رکھتا ہے اور اس کے مکانوں اور زمینوں کا کوئی مالک نہیں۔ اس لئے ان کی خرید وفروخت اور ان کو کرائے پر دینا ان کے نزدیک جائز نہیں۔ جو شخص بھی کسی جگہ سے حج یا عمرے کے لئے مکہ جائے تو اسے یہ حق حاصل ہے کہ وہ جہاں چاہے ٹھہر جائے، وہاں رہنے والوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے گھروں میں ٹھہرانے سے نہ روکیں۔ دوسری رائے یہ ہے کہ مکانات اور زمینیں ملک خاص ہو سکتی ہیں اور ان میں مالکانہ تصرفات یعنی بیچنا، کرائے پر دینا جائز ہے۔ البتہ وہ مقامات جن کا تعلق مناسک حج سے ہے، مثلاً منی، مزدلفہ اور عرفات کے میدان یہ وقف عام ہیں۔ ان میں کسی کی ملکیت جائز نہیں۔ یہ مسئلہ قدیم فقہاء کے درمیان خاصہ مختلف فیہ رہا ہے۔ تاہم آجکل تقریباً تمام کے تمام علماء ہی ملکیت خاص کے قائل ہوگئے ہیں۔ اور یہ مسئلہ سرے سے اختلافی ہی نہیں رہا۔ مولانا مفتی محمد شفیع مرحوم نے بھی امام ابو حنیفہ اور فقہاء کا مسلک مختار اسی کو قرار پایا ہے۔ (ملاحظہ ہو معارف القرآن جلد 6صفحہ253) 3- الحاد کے لفظی معنی تو کج روی کے ہیں یہاں یہ عام ہے، کفر و شرک سے لے کر ہر قسم کے گناہ کے لئے حتٰی کہ بعض عملا الفاظ قرآنی کے پیش نظر اس بات تک قائل ہیں کہ حرم میں اگر کسی گناہ کا ارادہ بھی کر لے گا، (چاہے اس پر عمل نہ کر سکے) تو وہ بھی اس وعید میں شامل ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ محض ارادے پر مؤاخذہ نہیں ہوگا، جیسا کہ دیگر آیات سے واضح ہے۔ تاہم ارادہ اگر عزم مصمم کی حد تک ہو تو پھر گرفت ہو سکتا ہے۔ (فتح القدیر)