إِذْ قَالَ لِأَبِيهِ وَقَوْمِهِ مَا هَٰذِهِ التَّمَاثِيلُ الَّتِي أَنتُمْ لَهَا عَاكِفُونَ
” یاد کرو وہ بات جب ابراہیم نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا تھا کہ یہ مورتیں کیا ہیں جن کا تم اعتکاف کرتے ہو ؟ (٥٢)
1- تَمَاثِیْل، تِمْثَالُ کی جمع ہے۔ یہ اصل میں کسی چیز کی ہوبہو نقل کو کہتے ہیں۔ جیسے پتھر کا مجسمہ یا کاغذ اور دیوار پر کسی کی تصویر۔ یہاں مراد وہ مورتیاں ہیں جو قوم ابراہیم (عليہ السلام) نے اپنے معبودوں کی بنا رکھی تھیں اور جن کی وہ عبادت کرتے تھے عَاكِفٌ، عُكُوفٌ سے اسم فاعل کا صیغہ ہے جس کے معنی کسی چیز کو لازم پکڑنے اور اس پر جھک کر جم کر بیٹھ رہنے کے ہیں۔ اسی سے اعتکاف ہے جس میں انسان اللہ کی عبادت کے لیے جم کر بیٹھتا ہے اور یکسوئی اور انہماک سے اس کی طرف لو لگاتا ہے یہاں اس سے مراد بتوں کی تعظیم وعبادت اور ان کے تھانوں پر مجاور بن کر بیٹھنا ہے یہ تمثالیں (مورتیاں اور تصویریں) قبر پرستوں اور پیر پرستوں میں بھی آجکل عام ہیں اور ان کو بڑے اہتمام سے گھروں اور دکانوں میں بطور تبرک آویزاں کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالٰی انہیں سمجھ عطا فرمائے۔