سورة الكهف - آیت 77

فَانطَلَقَا حَتَّىٰ إِذَا أَتَيَا أَهْلَ قَرْيَةٍ اسْتَطْعَمَا أَهْلَهَا فَأَبَوْا أَن يُضَيِّفُوهُمَا فَوَجَدَا فِيهَا جِدَارًا يُرِيدُ أَن يَنقَضَّ فَأَقَامَهُ ۖ قَالَ لَوْ شِئْتَ لَاتَّخَذْتَ عَلَيْهِ أَجْرًا

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

پھر وہ آگے چلے یہاں تک کہ ایک بستی میں پہنچ گئے اور وہاں کے لوگوں سے کھانا مانگا۔ مگر انہوں نے ان کی مہمانوازی سے انکار کردیا۔ وہاں حضرت خضر اور موسیٰ نے ایک دیوار دیکھی جو گرنے ہی والی تھی انہوں نے اس دیوار کو ٹھیک کردیا موسیٰ نے کہا اگر آپ چاہتے تو اس کام کی اجرت لے سکتے تھے۔“ (٧٧)

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- یعنی یہ بخیلوں کی بستی تھی کہ مہمانوں کی مہمان نوازی سے انکار کر دیا، دراں حالیکہ مسافروں کو کھانا کھلانا اور مہمان نوازی کرنا ہر شریعت کی اخلاقی تعلیمات کا اہم حصہ رہا ہے۔ نبی (ﷺ) نے بھی مہمان نوازی اور اکرام ضیف کو ایمان کا تقاضا قرار دیا ہے۔ فرمایا :[ مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ، فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ ] (فيض القدير شرح الجامع الصغير: 5/209) ”جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے، اسے چاہیے کہ مہمان کی عزت وتکریم کرے“۔ 2- حضرت خضر نے اس دیوار کو ہاتھ لگایا اور اللہ کے حکم سے معجزانہ طور پر سیدھی ہوگئی۔ جیسا کہ صحیح بخاری کی روایت سے واضح ہے۔ 3- حضرت موسیٰ (عليہ السلام)، جو اہل بستی کے رویے سے پہلے ہی کبیدہ خاطر تھے، حضرت خضر کے بلا معاوضہ احسان پر خاموش نہ رہ سکے اور بول پڑے کہ جب ان بستی والوں نے ہماری مسافرت، ضرورت مندی اور شرف وفضل کسی چیز کا بھی لحاظ نہیں کیا تو یہ لوگ کب اس لائق ہیں کہ ان کے ساتھ احسان کیا جائے؟