سورة الكهف - آیت 28

وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُم بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ ۖ وَلَا تَعْدُ عَيْنَاكَ عَنْهُمْ تُرِيدُ زِينَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَن ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ وَكَانَ أَمْرُهُ فُرُطًا

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اور اپنے آپ کو ان لوگوں کے ساتھ روکے رکھیں جو اپنے رب کو صبح شام یاد کرتے ہیں، اس کی رضا چاہتے ہیں، آپ کی آنکھیں ان سے آگے نہ بڑھیں کہ آپ دنیا کی زندگی کی زینت چاہتے ہو اور اس شخص کا کہنا مت مانیں جس کا دل ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا اور وہ اپنی خواہش کے پیچھے چلا اور اس کا معاملہ حد سے بڑھا ہوا ہے۔“ (٢٨)

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- یہ وہی حکم ہے جو اس کے قبل سورہ الا نعام: 52 میں گزر چکا ہے۔ مراد ان سے وہ صحابہ کرام (رضی الله عنہم) ہیں جو غریب اور کمزور تھے۔ جن کے ساتھ بیٹھنا اشراف قریش کو گوارا نہ تھا۔ حضرت سعد بن ابی وقاص (رضی الله عنہ) فرماتے ہیں کہ ہم چھ آدمی نبی (ﷺ) کے ساتھ تھے، میرے علاوہ بلال، ابن مسعود، ایک ہذلی اور دو صحابی (رضی الله عنہم) اور تھے۔ قریش مکہ نے خواہش ظاہر کی کہ ان لوگوں کو اپنے پاس سے ہٹا دو تاکہ ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ کی بات سنیں، نبی (ﷺ) کے دل میں آیا کہ چلو شاید میری بات سننے سے ان کے دلوں کی دنیا بدل جائے۔ لیکن اللہ تعالٰی نے سختی کے ساتھ ایسا کرنے سے منع فرما دیا (صحيح مسلم- فضائل الصحابة، باب فضل سعد بن أبي وقاص) 2- یعنی ان کو دور کر کے آپ اصحاب شرف واہل غنی کو اپنے قریب کرنا چاہتے ہیں۔ 3- فُرُطًا اگر افراط سے ہو تو معنی ہوں گے حد سے متجاوز اور اگر تفریط سے ہو تو معنی ہوں گے کہ ان کا کام تفریط پر مبنی ہے جس کا نتیجہ ضیاع اور ہلاکت ہے۔