وَلَا تَتَّخِذُوا أَيْمَانَكُمْ دَخَلًا بَيْنَكُمْ فَتَزِلَّ قَدَمٌ بَعْدَ ثُبُوتِهَا وَتَذُوقُوا السُّوءَ بِمَا صَدَدتُّمْ عَن سَبِيلِ اللَّهِ ۖ وَلَكُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ
” اور تم اپنی قسموں کو اپنے درمیان فریب کا ذریعہ نہ بناؤ، ایسا نہ ہو کہ قدم جمنے کے بعد پھسل جائے اور تم برائی کا خمیازہ چکھو، اس کے بدلے جو تم نے اللہ کی راہ سے روکا اور تمہارے لیے بہت بڑا عذاب ہو۔“ (٩٤) ”
1- مسلمانوں کو دوبارہ مذکورہ عہد شکنی سے روکا جا رہا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہاری اس اخلاقی پستی سے کسی کے قدم ڈگمگا جائیں اور کافر تمہارا یہ رویہ دیکھ کر قبول اسلام سے رک جائیں اور یوں تم لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکنے کے مجرم اور سزا کے مستحق بن جاؤ۔ بعض مفسرین نے أَيْمَانٌ يَمِينٌ (بمعنی قسم) کی جمع سے رسول اللہ (ﷺ) کی بیعت مراد لی ہے۔ یعنی نبی کی بیعت توڑ کر پھر مرتد نہ ہو جانا، تمہارے ارتداد کو دیکھ کر دوسرے لوگ بھی اسلام قبول کرنے سے رک جائیں گے اور یوں تم دگنے عذاب کے مستحق قرار پاؤ گے۔ (فتح القدیر)