يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى ۖ الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْأُنثَىٰ بِالْأُنثَىٰ ۚ فَمَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ شَيْءٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَاءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسَانٍ ۗ ذَٰلِكَ تَخْفِيفٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَرَحْمَةٌ ۗ فَمَنِ اعْتَدَىٰ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِيمٌ
اے ایمان والو! تم پر مقتولوں کا قصاص لینا فرض کیا گیا ہے آزاد، آزاد کے بدلے غلام، غلام کے بدلے، عورت، عورت کے بدلے، ہاں جس کسی کو اس کے بھائی کی طرف سے کچھ معافی دے دی جائے تو اسے بھلائی کی اتباع کرنی چاہیے اور آسانی کے ساتھ دیت ادا کرنی چاہیے۔ تمہارے رب کی طرف سے یہ تخفیف اور رحمت ہے اس کے بعد بھی جو زیادتی کرے اسے درد ناک عذاب ہوگا
1-زمانہ جاہلیت میں کوئی نظم اور قانون تو تھا نہیں، اس لئے زور آور قبیلے کمزور قبیلوں پر جس طرح چاہتے، ظلم وجور کا ارتکاب کرلیتے۔ ایک ظلم کی شکل یہ تھی کہ کسی طاقت ور قبیلے کا کوئی مرد قتل ہوجاتا تو وہ صرف قاتل کو قتل کرنے کے بجائے قاتل کے قبیلے کے کئی مردوںکو ، بلکہ بسااوقات پورے قبیلے ہی کو تہس نہس کرنے کی کوشش کرتے اور عورت کے بدلے مرد کو اور غلام کے بدلے آزاد کو قتل کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے اس فرق وامتیاز کو ختم کرتے ہوئے فرمایا کہ جو قاتل ہوگا، قصاص (بدلے) میں اسی کو قتل کیا جائے گا۔ قاتل آزاد ہے تو بدلے میں وہی آزاد، غلام ہے تو بدلے میں وہی غلام اور عورت ہے تو بدلے میں وہی عورت ہی قتل کی جائے گی، نہ کہ غلام کی جگہ آزاد اور عورت کی جگہ مرد، یا ایک مرد کے بدلے میں متعدد مرد۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ مرد اگر عورت کو قتل کردے تو قصاص میں کوئی عورت قتل کی جائے گی، یا عورت مرد کو قتل کردے تو کسی مرد کو قتل کیا جائے گا (جیسا کہ ظاہری الفاظ سے مفہوم نکلتا ہے) بلکہ یہ الفاظ شان نزول کے اعتبار سے ہیں جس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ قصاص میں قاتل ہی کو قتل کیا جائے گا، چاہے مرد ہو یا عورت، طاقتور ہو یا کمزور۔ [ الْمُسْلِمُونَ تَتَكَافَأُ دِمَاؤُهُمْ ] - الحديث (سنن أبي داود ، كتاب الجهاد ، باب في السرية ترد على أهل العسكر) ’’تمام مسلمانوں کے خون (مرد ہو یا عورت) برابر ہیں‘‘۔ گویا آیت کا وہی مفہوم ہے جو قرآن کریم کی دوسری آیت، ﴿النَّفْسَ بِالنَّفْسِ﴾ (المائدۂ: 45) کا ہے۔ احناف نے اس سے استدلال کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسلمان کو کافر کے قصاص میں قتل کیا جائے گا لیکن جمہور علما اس کے قائل نہیں، کیوں کہ حدیث میں وضاحت ہے: [ لا يُقْتَلُ مُسْلِمٌ بِكَافِرٍ ] (صحيح بخاري، كتاب الديات، باب لا يقتل المسلم بالكافر) ”مسلمان، کافر کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا“ (فتح القدیر) مزید دیکھیے آیت 45، سورۂ المائدہ۔ 2- معافی کی دو صورتیں ہیں : ایک بغیر معاوضہ مالی یعنی دیت لئے بغیر ہی محض رضائے الٰہی کے لئے معاف کردینا، دوسری صورت، قصاص کی بجائے دیت قبول کرلینا، اگر یہ دوسری صورت اختیار کی جائے تو کہا جا رہا ہے کہ طالب دیت بھلائی کا اتباع کرے۔ ﴿وَأَدَاءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسَانٍ﴾ میں قاتل کو کہا جا رہا ہے کہ بغیر تنگ کئے اچھے طریقے سے دیت کی ادائیگی کرے۔ اولیائے مقتول نے اس کی جان بخشی کرکے اس پر جو احسان کیا ہے، اس کا بدلہ احسان ہی کے ساتھ دے۔ ﴿هَلْ جَزَاءُ الإِحْسَانِ إِلا الإِحْسَانُ﴾ (الرحمٰن) 3- یہ تخفیف اور رحمت (یعنی قصاص،معافی یا دیت تین صورتیں) اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاص تم پر ہوئی ہے ورنہ اس سے قبل اہل تورات کے لئے قصاص یا معافی تھی، دیت نہیں تھی اور اہل انجیل (عیسائیوں) میں صرف معافی ہی تھی، قصاص تھا نہ دیت۔ (ابن کثیر)۔ 4- قبول دیت یا اخذ دیت کے بعد قتل بھی کردے تو یہ سرکشی اور زیادتی ہے جس کی سزا اسے دنیا وآخرت میں بھگتنی ہوگی۔