وَلَمَّا دَخَلُوا مِنْ حَيْثُ أَمَرَهُمْ أَبُوهُم مَّا كَانَ يُغْنِي عَنْهُم مِّنَ اللَّهِ مِن شَيْءٍ إِلَّا حَاجَةً فِي نَفْسِ يَعْقُوبَ قَضَاهَا ۚ وَإِنَّهُ لَذُو عِلْمٍ لِّمَا عَلَّمْنَاهُ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ
” اور جب داخل ہوئے جہاں سے ان کے باپ نے ان کو حکم دیا تھا، وہ ان سے اللہ کی طرف سے آنے والی کسی چیز کو ٹال نہیں سکتا تھا مگر یعقوب کے دل میں ایک خلش تھی جو اس نے پوری کی اور بلاشبہ وہ یقیناً بہت علم والا تھا، وجہ یہ ہے کہ ہم نے اسے علم عطا کیا تھا اور اکثر لوگ نہیں جانتے۔“ (٦٨)
1- یعنی اس تدبیر سے اللہ کی تقدیر کو ٹالا نہیں جاسکتا تھا، تاہم حضرت یعقوب (عليہ السلام) کے جی میں جو (نظر بد لگ جانے کا) اندیشہ تھا، اس کے پیش نظر انہوں نے ایسا کہا۔ 2- یعنی یہ تدبیر وحی الٰہی کی روشنی میں تھی اور یہ عقیدہ بھی کہ حذر (احتیا طی تدبیر) قدر کو نہیں بدل سکتی، اللہ تعالٰی کے سکھلائے ہوئے علم پر مبنی تھا، جس سے اکثر لوگ بے بہرہ ہیں۔