سورة یوسف - آیت 56

وَكَذَٰلِكَ مَكَّنَّا لِيُوسُفَ فِي الْأَرْضِ يَتَبَوَّأُ مِنْهَا حَيْثُ يَشَاءُ ۚ نُصِيبُ بِرَحْمَتِنَا مَن نَّشَاءُ ۖ وَلَا نُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اور اسی طرح ہم نے زمین میں یوسف کو اقتدار عطا فرمایا، اس میں جہاں چاہتا تھا جگہبناتا تھا۔ ہم جس کو چاہتے ہیں اپنی رحمت سے نوازتے ہیں اور ہم نیکی کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتے۔“ (٥٦) ”

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- یعنی ہم نے یوسف (عليہ السلام) کو زمین میں ایسی قدرت وطاقت عطا کی کہ بادشاہ وہی کچھ کرتا جس کا حکم حضرت یوسف (عليہ السلام) کرتے، اور سرزمین مصر میں اس طرح تصرف کرتے جس طرح انسان اپنے گھر میں کرتا ہے اور جہاں چاہتے، وہ رہتے، پورا مصر ان کے زیرنگین تھا۔ 2- یہ گویا اجر تھا ان کے صبر کا جو بھائیوں کے ظلم و ستم پر انہوں نے کیا اور ثابت قدمی کا جو زلیخا کی دعوت گناہ کے مقابلے میں اختیار کی اور اس کی اولو العزمی کا جو قید خانے کی زندگی میں اپنا رکھی۔ حضرت یوسف (عليہ السلام) کا یہ منصب وہ ہی تھا جس پر اس سے پہلے وہ عزیز مصر فائز تھا جس کی بیوی نے کو ورغلانے کی مذموم سعی کی تھی۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ بادشاہ حضرت یوسف (عليہ السلام) کی دعوت و تبلیغ سے مسلمان ہوگیا تھا بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ عزیز مصر، جس کا نام اطفیر تھا، فوت ہوگیا تو اس کے بعد زلیخا کا نکاح حضرت یوسف (عليہ السلام) سے ہوگیا اور دو بچے بھی ہوئے، ایک نام افرائیم اور دوسرے کا نام میشا تھا، افرئیم ہی یوشع بن نون اور حضرت ایوب (عليہ السلام) کی بیوی رحمت کے والد تھے (تفسیر ابن کثیر) لیکن یہ بات کسی مستند روایت سے ثابت نہیں اس لئے نکاح والی بات صحیح معلوم نہیں ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں اس عورت سے جس کردار کا مظاہرہ ہوا، اس کے ہوتے ہوئے ایک نبی کے حرم سے اس کی وابستگی، نہایت نامناسب بات لگتی ہے۔