سورة یوسف - آیت 44

قَالُوا أَضْغَاثُ أَحْلَامٍ ۖ وَمَا نَحْنُ بِتَأْوِيلِ الْأَحْلَامِ بِعَالِمِينَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

’ انھوں نے کہا یہ پریشان خواب ہیں اور ہم ایسے خوابوں کی تعبیر نہیں جانتے۔ (٤٤) ”

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- أَضْغَاثٌ ضِغْثٌ کی جمع ہے جس کے معنی گھاس کے گٹھے کے ہیں۔ أَحْلامٍ حِلْمٌ (بمعنی خواب) کی جمع ہے۔ اضغاث احلام کے معنی ہوں گے خواب ہائے پریشان، یا خیالات منتشرہ، جن کی کوئی تعبیر نہ ہو۔ یہ خواب اس بادشاہ کو آیا، عزیز مصر جس کا وزیر تھا۔ اللہ تعالٰی کو اس خواب کے ذریعے سے یوسف (عليہ السلام) کی رہائی عمل میں لانی تھی۔ چنانچہ بادشاہ کے درباریوں، کاہنوں اور نجومیوں نے اس خواب پریشان کی تعبیر بتلانے سے عجز کا اظہار کر دیا، بعض کہتے ہیں کہ نجومیوں کے اس قول کا مطلب مطلقا علم تعبیر کی نفی ہے اور بعض کہتے ہیں کہ علم تعبیر سے وہ بےخبر نہیں تھے نہ اس کی انہوں نے نفی کی، انہوں نے صرف خواب کی تعبیر بتلانے سے لا علمی کا اظہار کیا۔