وَقَالَ الَّذِي اشْتَرَاهُ مِن مِّصْرَ لِامْرَأَتِهِ أَكْرِمِي مَثْوَاهُ عَسَىٰ أَن يَنفَعَنَا أَوْ نَتَّخِذَهُ وَلَدًا ۚ وَكَذَٰلِكَ مَكَّنَّا لِيُوسُفَ فِي الْأَرْضِ وَلِنُعَلِّمَهُ مِن تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ ۚ وَاللَّهُ غَالِبٌ عَلَىٰ أَمْرِهِ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ
” اور جس شخص نے اسے مصر سے خریدا اس نے اپنی بیوی سے کہا اسے اچھے انداز میں رکھیں۔ ہوسکتا ہے کہ ہمیں فائدہ دے یا ہم اسے بیٹا بنا لیں۔ اور اسی طرح ہم نے یوسف کو اس زمین میں جگہ دی، تاکہ ہم اسے معاملات کی حقیقت تک پہنچنا سکھائیں۔ اللہ اپنے کام پر غالب ہے اور لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔“ (٢١)
1- کہا جاتا ہے کہ مصر پر اس وقت ریان بن ولید حکمران تھا اور یہ عزیز مصر، جس نے یوسف (عليہ السلام) کو خریدا اس کا وزیر خزانہ تھا، اس کی بیوی کا نام بعض نے راعیل اور بعض نے زلیخا بتلایا ہے واللہ اعلم۔ 2- یعنی جس طرح ہم نے یوسف (عليہ السلام) کو کنویں سے ظالم بھائیوں سے نجات دی، اسی طرح ہم نے یوسف (عليہ السلام) کو سرزمین مصر میں ایک معقول اچھا ٹھکانا عطا کیا۔