فَلَوْلَا كَانَ مِنَ الْقُرُونِ مِن قَبْلِكُمْ أُولُو بَقِيَّةٍ يَنْهَوْنَ عَنِ الْفَسَادِ فِي الْأَرْضِ إِلَّا قَلِيلًا مِّمَّنْ أَنجَيْنَا مِنْهُمْ ۗ وَاتَّبَعَ الَّذِينَ ظَلَمُوا مَا أُتْرِفُوا فِيهِ وَكَانُوا مُجْرِمِينَ
” پھر ان امتوں میں سے جو تم سے پہلے تھیں عقل و بصیرت والے لوگ کیوں نہ ہوئے۔ جو زمین میں فساد سے منع کرتے سوائے تھوڑے سے لوگوں کے جنہیں ہم نے ان میں سے نجات دی۔ اور جو ظالم تھے وہ ان چیزوں کے پیچھے لگے رہے جن کے سامان انھیں فراوانی کے ساتھ دیے گئے اور وہ مجرم تھے۔“
* یعنی گزشتہ امتوں میں ایسے نیک لوگ کیوں نہ ہوئے جو اہل شر اور اہل منکر کو شر، منکرات اور فساد سے روکتے؟ پھر فرمایا، ایسے لوگ تھے تو سہی، لیکن بہت تھوڑے۔ جنہیں ہم نے اس وقت نجات دے دی، جب دوسروں کو عذاب کے ذریعے سے ہلاک کیا گیا۔ ** یعنی یہ ظالم۔ اپنے ظلم پر قائم اور اپنی مد ہوشیوں میں مست رہے حتٰی کہ عذاب نے انہیں آ لیا۔