سورة ھود - آیت 52

وَيَا قَوْمِ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُم مِّدْرَارًا وَيَزِدْكُمْ قُوَّةً إِلَىٰ قُوَّتِكُمْ وَلَا تَتَوَلَّوْا مُجْرِمِينَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اور اے میری قوم ! اپنے رب سے مغفرت طلب کرو پھر اس کی طرف پلٹ آؤ۔ وہ تم پر بادل بھیجے گا۔ جو خوب برسنے والا ہوگا اور تمہیں تمہاری قوت کے ساتھ اور قوت زیادہ دے گا اور مجرموں کی طرح رو گر دانی نہ کرو۔“ (٥٢)

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- حضرت ہود (عليہ السلام) نے توبہ و استغفار کی تلقین اپنی امت یعنی اپنی قوم کو کی اور اس کے دو فوائد بیان فرمائے جو توبہ اور استغفار کرنے والی قوم کو حاصل ہوتے ہیں۔ جس طرح کہ قرآن کریم میں اور بھی بعض مقامات پر یہ فوائد بیان کئے گئے ہیں (ملاحظہ سورۂ نوح: 11) اور نبی (ﷺ) کا بھی فرمان ہے [ مَنْ لَزِمَ الاسْتِغْفَارَ جَعَلَ اللهُ لَهُ مِنْ كُلِّ هَمٍّ فَرَجًا، وَمِنْ كُلِّ ضِيقٍ مَخْرَجًا وَرَزَقَهُ مِنْ حَيْثُ لا يَحْتَسِبُ ] (أبو داود، كتاب الوتر، باب في الاستغفار، نمبر1518، وابن ماجہ ۔ نمبر3819)۔ ”جو پابندی سے استغفار کرتا ہے، اللہ تعالٰی اس کے لئے ہر فکر سے کشادگی، اور ہر تنگی سے راستہ بنا دیتا ہے اور اس کو ایسی جگہ سے روزی دیتا ہے جو اس کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہوتی“۔ 2- یعنی میں تمہیں جو دعوت دے رہا ہوں، اس سے اعراض اور اپنے کفر پر اصرار مت کرو۔ ایسا کرو گے تو اللہ کی بارگاہ میں مجرم اور گناہ گار بن کر پیش ہو گے۔