يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَتْكُم مَّوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَشِفَاءٌ لِّمَا فِي الصُّدُورِ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ
” اے لوگو! یقیناً تمھارے پاس تمھارے رب کی طرف سے ایک نصیحت آگئی اور جو سینوں میں ہے اس کے لیے سراسر شفا ہے اور ایمان والوں کے لیے ہدایت اور رحمت آئی ہے۔“ (٥٧)
1- یعنی جو قرآن کو دل کی توجہ سے پڑھے اور اس کے معنی و مطالب پر غور کرے، اس کے لئے قرآن نصیحت ہے قرآن کریم ترغیب و ترہیب دونوں طریقوں سے واعظ و نصیحت کرتا ہے اور ان کے نتائج سے آگاہ کرتا ہے جن سے اللہ تعالٰی کی نافرمانی کی صورت میں دو چار ہونا پڑے گا اور ان کاموں سے روکتا ہے جن سے انسان کی اخروی زندگی برباد ہوسکتی ہے۔ 2- یعنی دلوں میں توحید و رسالت اور عقائد حقہ کے بارے میں جو شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں ان کا ازالہ اور کفر و نفاق کی جو گندگی و پلیدی ہوتی ہے اسے صاف کرتا ہے۔ 3- یہ قرآن مومنوں کے لئے ہدایت اور رحمت کا ذریعہ ہے ویسے تو یہ قرآن سارے جہان والوں کے لئے ہدایت و رحمت کا ذریعہ ہے لیکن چونکہ اس سے فیض یاب صرف اہل ایمان ہی ہوتے ہیں، اس لئے یہاں صرف انہی کے لئے اسے ہدایت و رحمت قرار دیا گیا ہے۔ اس مضمون کو قرآن کریم میں سورہ بنی اسرائیل آیت 82 اور سورہ الم سجدہ آیت 44 میں بھی بیان کیا گیا ہے (نیز ﴿هُدًى لِلْمُتَّقِينَ﴾ کا حاشیہ ملاحظہ فرمائیں)