سورة التوبہ - آیت 31

اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا إِلَٰهًا وَاحِدًا ۖ لَّا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۚ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

انہوں نے اپنے عالموں اور اپنے درویشوں کو اللہ کے سوا رب بنالیا اور مسیح ابن مریم کو بھی، حالانکہ انہیں صرف یہ حکم تھا کہ ایک الٰہ کی عبادت کریں اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہ اس سے پاک ہے جو وہ شریک بناتے ہیں۔“ (٣١)

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- اس کی تفسیر حضرت عدی بن حاتم (رضی الله عنہ) کی بیان کردہ حدیث سے بخوبی ہو جاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی (ﷺ) سے یہ آیت سن کر عرض کیا کہ یہود و نصاریٰ نے تو اپنے علماء کی کبھی عبادت نہیں کی، پھر یہ کیوں کہا گیا کہ انہوں نے ان کو رب بنا لیا؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا: ”یہ ٹھیک ہے کہ انہوں نے ان کی عبادت نہیں کی لیکن یہ بات تو ہے نا، کہ ان کے علماء نے جس کو حلال قرار دے دیا، اس کو انہوں نے حلال اور جس چیز کو حرام کر دیا اس کو حرام ہی سمجھا۔ یہی ان کی عبادت کرنا ہے“۔ (صحيح ترمذي- للأباني- نمبر2471) کیونکہ حرام وحلال کرنے کا اختیار صرف اللہ تعالٰی کو ہے یہی حق اگر کوئی شخص کسی اور کے اندر تسلیم کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے اس کو اپنا رب بنا لیا ہے اس آیت میں ان لوگوں کے لیے بڑی تنبیہ ہے جنہوں نے اپنے اپنے پیشواؤں کو تحلیل وتحریم کا منصب دے رکھا ہے اور ان کے اقوال کے مقابلے میں وہ نصوص قرآن وحدیث کو بھی اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔