أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تُتْرَكُوا وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جَاهَدُوا مِنكُمْ وَلَمْ يَتَّخِذُوا مِن دُونِ اللَّهِ وَلَا رَسُولِهِ وَلَا الْمُؤْمِنِينَ وَلِيجَةً ۚ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ
” یاتم نے گمان کر رکھا ہے کہ تم چھوڑ دیے جاؤ گے، حالانکہ ابھی اللہ نے ان لوگوں کو نہیں جانا جنہوں نے تم میں سے جہاد کیا اور نہ اللہ اور اس کے رسول اور ایمان والوں کے سوا کسی کو راز دار بنایا اللہ اس سے باخبر ہے جو تم کرتے ہو۔“ (١٦)
1- یعنی بغیر امتحان اور آزمائش کے۔ 2- گویا جہاد کے ذریعے امتحان لیا گیا۔ 3- ”وَلِيجَةٌ“، گہرے اور دلی دوست کو کہتے ہیں مسلمانوں کو چونکہ اللہ اور رسول کے دشمنوں سے محبت کرنے اور دوستانہ تعلقات رکھنے سے منع کیا گیا تھا لہذا یہ بھی آزمائش کا ایک ذریعہ تھا، جس سے مخلص مومنوں کو دوسروں سے ممتاز کیا گیا۔ 4- مطلب یہ ہے کہ اللہ کو پہلے ہی ہرچیز کا علم ہے۔ لیکن جہاد کی حکمت یہ ہے کہ اس سے مخلص اور غیر مخلص، فرماں بردار اور نافرمان بندے نمایاں ہو کر سامنے آجاتے، جنہیں ہر شخص دیکھ اور پہچان لیتا ہے۔