سورة الاعراف - آیت 176

وَلَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنَاهُ بِهَا وَلَٰكِنَّهُ أَخْلَدَ إِلَى الْأَرْضِ وَاتَّبَعَ هَوَاهُ ۚ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ الْكَلْبِ إِن تَحْمِلْ عَلَيْهِ يَلْهَثْ أَوْ تَتْرُكْهُ يَلْهَث ۚ ذَّٰلِكَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا ۚ فَاقْصُصِ الْقَصَصَ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اور اگر ہم چاہتے تو اسے ان کے ذریعے بلند کردیتے مگر وہ زمین کی طرف چمٹ گیا اور اپنی خواہش کے پیچھے لگ گیا۔ اس کی مثال کتے کی طرح ہے کہ اگر آپ اس پر حملہ کریں تو زبان نکالے ہانپتا ہے یا اسے چھوڑ دے تو بھی زبان نکالے ہانپتا ہے۔ یہ ان لوگوں کی مثال ہے جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا آپ ان کو یہ سنائیں تاکہ وہ غوروفکر کریں۔“ (١٧٦)

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- ”لَهَثٌ“ کہتے ہیں تھکاوٹ یا پیاس وغیرہ کی وجہ سے زبان کے باہر نکالنے کو۔ کتے کی یہ عادت ہے کہ تم اسے ڈانٹو ڈپٹو یا اس کے حال پر چھوڑ دو، دونوں حالتوں میں وہ بھونکنے سے باز نہیں آتا، اسی طرح اس کی یہ عادت بھی ہے کہ وہ شکم سیر ہویا بھوکا، تندرست ہو یا بیمار، تھکا ماندہ ہو یا توانا، ہر حال میں زبان باہر نکالنے ہانپتا رہتا ہے۔ یہی حال ایسے شخص کا ہے، اسے وعظ کرو یا نہ کرو، اس کا حال ایک ہی رہے گا اور دنیا کے مال ومتاع کے لیے اس کی رال ٹپکتی رہے گی۔ 2- اور اس قسم کے لوگوں سے عبرت حاصل کرکے، گمراہی سے بچیں اور حق کو اپنائیں۔