سورة الاعراف - آیت 164

وَإِذْ قَالَتْ أُمَّةٌ مِّنْهُمْ لِمَ تَعِظُونَ قَوْمًا ۙ اللَّهُ مُهْلِكُهُمْ أَوْ مُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا شَدِيدًا ۖ قَالُوا مَعْذِرَةً إِلَىٰ رَبِّكُمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اور جب ان میں سے ایک گروہ نے کہا تم ایسے لوگوں کو کیوں نصیحت کرتے ہو جنہیں اللہ ہلاک کرنے والا ہے یا انہیں سخت عذاب دینے والا ہے ؟ انہوں نے کہا معذرت طرف تمہارے رب اور تاکہ وہ ڈرجائیں

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- اس جماعت سے صالحین کی وہ جماعت مراد ہے جو اس حیلے کا ارتکاب بھی نہیں کرتی تھی اور حیلہ گروں کو سمجھا سمجھا کر ان کی اصلاح سے مایوس بھی ہوگئی تھی ۔ تاہم کچھ اور لوگ بھی سمجھانے والے تھے جو انہیں وعظ ونصیحت کرتے تھے ۔ صالحین کی یہ جماعت انہیں یہ کہتی کہ ایسے لوگوں کو وعظ ونصیحت کا کیا فائدہ جن کی قسمت میں ہلاکت وعذاب الٰہی ہے ۔ یا اس جماعت سے وہی نافرمان اور تجاوز کرنے والے مراد ہیں، جب ان کو وعظ کرنے والے نصیحت کرتے تو یہ کہتے کہ جب تمہارے خیال میں ہلاکت یا عذاب الٰہی ہمارا مقدر ہے تو پھر ہمیں کیوں وعظ کرتے ہو؟ تو وہ جواب دیتے کہ ایک تو اپنے رب کے سامنے معذرت پیش کرنے کے لیے تاکہ ہم تو اللہ کی گرفت سے محفوظ رہیں۔ کیونکہ معصیت الٰہی کا ارتکاب ہوتے ہوئے دیکھنا اور پھر اسے روکنے کی کوشش نہ کرنا بھی جرم ہے، جس پر اللہ تعالیٰ کی گرفت ہوسکتی ہے۔ اور دوسرا فائدہ یہ ہے کہ شاید یہ لوگ حکم الٰہی سے تجاوز کرنے سے باز ہی آجائیں ۔ پہلی تفسیر کی رو سے یہ تین جماعتیں ہوئیں ۔ (1) ۔ نافرمان اور شکار کرنے والی جماعت (2) ۔ وہ جماعت جو بالکل کنارہ کش ہوگئی، نہ وہ نافرمانوں میں تھی نہ منع کرنے والوں میں (3) ۔ وہ جماعت جو نافرمان بھی نہیں تھی۔ اور بالکل کنارہ کش بھی نہیں ہوئی تھی ۔ بلکہ نافرمانوں کو منع کرتی تھی۔ دوسری تفسیر کی رو سے یہ دو جماعتیں ہوں گی ۔ ایک نافرمانوں کی اور دوسری منع کرنے والوں کی۔