قَالُوا أَجِئْتَنَا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ مَا كَانَ يَعْبُدُ آبَاؤُنَا ۖ فَأْتِنَا بِمَا تَعِدُنَا إِن كُنتَ مِنَ الصَّادِقِينَ
انہوں نے کہا کیا تو ہمارے پاس اس لیے آیا ہے کہ ہم ایک اللہ کی عبادت کریں اور انہیں چھوڑ دیں جن کی عبادت ہمارے باپ دادا کرتے تھے ؟ جس کی تو دھمکی ہمیں دیتا ہے وہ ہم پر لے آ، اگر تو سچے لوگوں میں سے ہے“ (٧٠)
1- آباواجداد کی تقلید، ہر دور میں گمراہی کی بنیاد رہی ہے ۔ قوم عاد نے بھی یہی دلیل پیش کی اور شرک کو چھوڑ کر، توحید کا راستہ اختیار کرنے پر آمادہ نہیں ہوئے ۔ بدقسمتی سے مسلمانوں میں بھی اپنے بڑوں کی تقلید کی یہ بیماری عام ہے ۔ 2- جس طرح قریش نے بھی رسول (ﷺ) کی دعوت توحید کے جواب میں کہا تھا ﴿اللَّهُمَّ إِنْ كَانَ هَذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَأَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِنَ السَّمَاءِ أَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ﴾ (الانفال: 32) ”اے اللہ! اگر یہ حق ہے تیری طرف سے تو ہم پر آسمان سے پتھروں کی بارش برسا یا کوئی اور دردناک عذاب ہم پر بھیج دے“۔ یعنی شرک کرتے کرتے مشرک کی مت بھی ماری جاتی ہے ۔ حالانکہ عقل مندی کا تقاضا یہ تھا کہ یہ کہا جاتا یااللہ اگر یہ سچ ہے اور تیری ہی طرف سے ہے تو ہمیں اسے قبول کرنے کی توفیق عطا فرما ۔ بہرحال قوم عاد نے اپنے پیغمبر حضرت ہود (عليہ السلام) سے کہہ دیا، کہ اگر تو سچا ہے تو اپنے اللہ سے کہہ جس عذاب سے وہ ڈراتا ہے، بھیج دے ۔