سورة الانعام - آیت 156

أَن تَقُولُوا إِنَّمَا أُنزِلَ الْكِتَابُ عَلَىٰ طَائِفَتَيْنِ مِن قَبْلِنَا وَإِن كُنَّا عَن دِرَاسَتِهِمْ لَغَافِلِينَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

ایسا نہ ہو کہ تم کہو کہ کتاب تو صرف ان دو گروہوں پر اتاری گئی جو ہم سے پہلے تھے اور بے شک ہم تو ان کے پڑھنے پڑھانے سے بے خبر تھے (١٥٧)

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

لاف زنی عیب ہے دوسروں کو بھی نیکی سے روکنے والے بدترین ہیں فرماتا ہے کہ ’ اس آخری کتاب نے تمہارے تمام عذر ختم کر دیئے ‘ ۔ جیسے فرمان ہے «وَلَوْلَآ اَنْ تُصِیْبَہُمْ مٰصِیْبَۃٌ بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْہِمْ فَیَقُوْلُوْا رَبَّنَا لَوْلَآ اَرْسَلْتَ اِلَیْنَا رَسُوْلًا فَنَتَّبِعَ اٰیٰتِکَ وَنَکُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْن» ۱؎ (28-القصص:47) ، یعنی ’ اگر انہیں ان کی بد اعمالیوں کی وجہ سے کوئی مصیبت پہنچتی تو کہہ دیتے کہ تونے ہماری طرف کوئی رسول کیوں نہ بھیجا کہ ہم تیرے فرمان کو مانتے ‘ ۔ اگلی دو جماعتوں سے مراد یہود و نصرانی ہیں ۔ ’ اگر یہ عربی زبان کا قرآن نہ اترتا تو وہ یہ عذر کر دیتے کہ ہم پر تو ہماری زبان میں کوئی کتاب نہیں اتری ہم اللہ کے فرمان سے بالکل غافل رہے پھر ہمیں سزا کیوں ہو ؟ نہ یہ عذر باقی رہا نہ یہ کہ اگر ہم پر آسان کتاب اترتی تو ہم تو اگلوں سے آگے نکل جاتے اور خوب نیکیاں کرتے ‘ ۔ جیسے فرمان ہے آیت «وَأَقْسَمُوا بِ اللہِ جَہْدَ أَیْمَانِہِمْ لَئِن جَاءَہُمْ نَذِیرٌ لَّیَکُونُنَّ أَہْدَیٰ مِنْ إِحْدَی الْأُمَمِ فَلَمَّا جَاءَہُمْ نَذِیرٌ مَّا زَادَہُمْ إِلَّا نُفُورًا» ۱؎ (35-فاطر:42) ، یعنی ’ مؤکد قسمیں کھا کھا کر لاف زنی کرتے تھے کہ ہم میں اگر کوئی نبی آ جائے تو ہم ہدایت کو مان لیں ‘ ۔ اللہ فرماتا ہے ’ اب تو تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ہدایت و رحمت بھرا قرآن بزبان رسول عربی آ چکا جس میں حلال حرام کا بخوبی بیان ہے اور دلوں کی ہدایت کی کافی نورانیت اور رب کی طرف سے ایمان والوں کیلئے سراسر رحمت و رحم ہے ، اب تم ہی بتاؤ کہ جس کے پاس اللہ کی آیتیں آ جائیں اور وہ انہیں جھٹلائے ان سے فائدہ نہ اٹھائے نہ عمل کرے نہ یقین لائے نہ نیکی کرے نہ بدی چھوڑے نہ خود مانے نہ اوروں کو ماننے دے اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے ؟ ‘ ۔ اسی سورت کے شروع میں فرمایا ہے آیت «وَہُمْ یَنْہَوْنَ عَنْہُ وَیَنْأَوْنَ عَنْہُ وَإِن یُہْلِکُونَ إِلَّا أَنفُسَہُمْ» ۱؎ (6-الانعام:26) ’ خود اس کے مخالف اوروں کو بھی اسے ماننے سے روکتے ہیں دراصل اپنا ہی بگاڑتے ہیں ‘ ۔ جیسے فرمایا آیت «الَّذِینَ کَفَرُوا وَصَدٰوا عَن سَبِیلِ اللہِ زِدْنَاہُمْ عَذَابًا فَوْقَ الْعَذَابِ» ۱؎ (16-النحل:88) یعنی ’ جو لوگ خود کفر کرتے ہیں اور راہ الٰہی سے روکتے ہیں انہیں ہم عذاب بڑھاتے رہیں گے ‘ ۔ پس یہ لوگ ہیں جو نہ مانتے تھے نہ فرماں بردار ہوتے تھے ۔ جیسے فرمان ہے آیت «فَلَا صَدَّقَ وَلَا صَلّٰی وَلٰکِن کَذَّبَ وَتَوَلَّیٰ» ۱؎ (75-القیامۃ:32-31) یعنی ’ نہ تونے مانا نہ نماز پڑھی بلکہ نہ مان کر منہ پھیر لیا ‘ ۔ ان دونوں تفسیروں میں پہلی بہت اچھی ہے یعنی خود بھی انکار کیا اور دوسروں کا بھی انکار پر آمادہ کیا ۔