سورة المآئدہ - آیت 105

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنفُسَكُمْ ۖ لَا يَضُرُّكُم مَّن ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ ۚ إِلَى اللَّهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اے لوگوجو ایمان لائے ہو ! تم پر اپنے آپ کو بچانا لازم ہے تمہیں وہ شخص نقصان نہیں پہنچائے گا جو گمراہ ہے جب تم ہدایت پاچکے ہو۔ تم سب نے اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے، پھر وہ تمہیں بتائے گا جو کچھ تم کیا کرتے تھے۔“ (١٠٥)

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

اپنی اصلاح آپ کرو اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو حکم دیتا ہے کہ ’ وہ خود اپنی اصلاح کریں اور اپنی طاقت کے مطابق نیکیوں میں مشغول رہیں ، جب وہ خود ٹھیک ٹھاک ہو جائیں گے تو برے لوگوں کا ان پر کوئی بوجھ نہیں پڑے گا خواہ وہ رشتے دار اور قریبی ہوں خواہ اجنبی اور دور کے ہوں ‘ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ جب کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عامل ہو جائے برائیوں سے بچ جائے تو اس پر گنہگار لوگوں کے گناہ کا کوئی بوجھ بار نہیں ۔ مقاتل رحمۃ اللہ سے مروی ہے کہ ہر عامل کو اس کے عمل کا بدلہ ملتا ہے بروں کو سزا اچھوں کو جزا ۔ اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ اچھی بات کا حکم اور بری باتوں سے منع بھی نہ کرے ، کیونکہ مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ { سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے خطبے میں فرمایا لوگو تم اس آیت کو پڑھتے ہو اور اس کا مطلب غلط لیتے ہو سنو! میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ { لوگ جب بری باتوں کو دیکھتے ہوئے انہیں نہیں روکیں گے تو بہت ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی عام عذاب آ جائے } } ۔ امیر المومنین رضی اللہ عنہ کا یہ فرمان بھی ہے کہ جھوٹ سے بچو جھوٹ ایمان کی ضد ہے ۱؎ (سنن ترمذی:2168،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ابوثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ سے اس آیت کی بابت سوال ہوا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا { میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں سوال کیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { نہیں بلکہ تم بھلائی کا حکم اور برائی سے ممانعت کرتے رہو یہاں تک کہ بخیلی کی پیروی اور خواہش نفس کی اتباع اور دنیا کی پسندیدگی اور ہر شخص کا اپنی رائے پر پھولنا عام نہ ہو جائے اس وقت تم صرف اپنی اصلاح میں مشغول ہو جاؤ اور عام لوگوں کو چھوڑ دو ، یاد رکھو تمہارے پیچھے صبر کے دن آ رہے ہیں اس وقت دین اسلام پر جما رہنے والا ایسا ہوگا جیسے کوئی انگارے کو مٹھی میں لیے ہوئے ہو اس وقت عمل کرنے والے کو مثل پچاس شخصوں کے عمل کا اجر ملے گا جو بھی اچھے اعمال کرے گا } } ۔ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ { صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے پوچھا یا رسول اللہ مثل پچاس شخصوں کے ان میں سے یا ہم میں سے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { نہیں بلکہ تم میں سے } } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:4341،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی جب اس آیت کا مطلب دریافت کیا گیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” یہ وہ وقت نہیں آج تو تمہاری باتیں مان لی جاتی ہیں لیکن ہاں ایک زمانہ ایسا بھی آنے والا ہے کہ نیک باتیں کہنے اور بھلائی کا حکم کرنے والوں کے ساتھ ظلم و زیادتی کی جائے گی اور اس کی بات قبول نہ کی جائے گی اس وقت تم صرف اپنے نفس کی اصلاح میں لگ جانا “ ۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی مجلس میں کچھ لوگ بیٹھے ہوئے تھے دو شخصوں میں کچھ جھگڑا ہوگیا اور وہ آمنے سامنے کھڑے ہوگئے تو ایک نے کہا میں اٹھتا ہوں اور انہیں نیکی کا حکم کرتا ہوں اور برائی سے روکتا ہوں تو دوسرے نے کہا مجھے کیا پڑی ؟ تو اپنی اصلاح میں لگا رہ ، پھر یہی آیت تلاوت کی اسے سن کر سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” چپ رہ اس آیت کے عمل کا یہ وقت نہیں قرآن میں کئی طرح کی آیتیں ہیں بعض تو وہ ہیں جن کے مضامین گزرچکے بعض وہ ہیں جن کے واقعات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہو گئے ، بعض کے واقعات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہوئے بعض قیامت کے دن ہوں گے مثلاً جنت دوزخ وغیرہ ، سنو جب تک تمہارے دل نہ پھٹیں تمہارا مقصود ایک ہی ہو تم میں پھوٹ نہ پڑی ہو تم میں لڑائی دنگے شروع نہ ہوئے ہوں تم اچھی باتوں کی ہدایت کرتے رہو اور بری باتوں سے روکتے رہو ۔ ہاں جب دلوں میں جدائی ہو جائے ۔ آپس میں اختلاف پڑ جائیں لڑائیاں شروع ہو جائیں اس وقت صرف اپنے تیئس پابند شریعت رکھنا کافی ہے اور وہی وقت ہے اس آیت کے عمل کا “ ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری) سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے کہا گیا کہ ان دنوں تو آپ رضی اللہ عنہ اگر اپنی زبان روک لیں تو اچھا ہو آپ رضی اللہ عنہ کو کیا پڑی کوئی کچھ ہی کرے آپ رضی اللہ عنہ نہ کسی کو روکیں نہ کچھ کہیں ۔ دیکھئیے قرآن میں بھی تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’ تم اپنے تئیں سنبھا لو گمراہوں کی گمراہی کا وبال تم پر نہیں جبکہ تم خود راہ راست پر ہو ‘ ۔ تو سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا یہ حکم میرے اور میرے ساتھیوں کیلئے نہیں اس لیے کہ حضور علیہ السلام نے فرمایا ہے { خبردار ہر موجود شخص غیر موجود لوگوں کو پہنچا دے } ۔ پس ہم موجود تھے اور تم غیر موجود تھے ۔ یہ آیت تو ان لوگوں کے حق میں ہے جو بعد میں آئیں گے وہ لوگوں کو نیک باتیں کہیں گے لیکن ان کی بات قبول نہ کی جائے گی ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:12855:ضعیف) حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی مجلس میں ایک صاحب آئے بڑے غصیل اور تیز زبان ، کہنے لگے سنیئے جناب چھ شخص ہیں سب قرآن پڑھے ہوئے جاننے بوجھنے والے مجہتد سمجھدار لیکن ہر ایک دوسرے کو مشرک بتلاتا ہے ، اس نے کہا میں تم سے نہیں پوچھتا میں تو ابن عمر رضی اللہ عنہ سے سوال کرتا ہوں اور پھر وہی بات دوہرا دی تو عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” شاید تو یہ چاہتا ہے کہ میں تجھے یہ کہہ دوں کہ جا انہیں قتل کر ڈال نہیں میں کہتا ہوں جا انہیں نصیحت کر انہیں برائی سے روک نہ مانیں تو اپنی راہ لگ “ ، پھر آپ نے یہی آیت تلاوت کی ۔ خلیفہ ثالث سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ابن مازن رحمۃ اللہ مدینے میں آتے ہیں یہاں مسلمانوں کا ایک مجمع جمع تھا جس میں سے ایک شخص نے اسی آیت کی تلاوت کی تو اکثر لوگوں نے کہا اس کے عمل کا وقت ابھی تک نہیں آیا ۔ جبیر بن نفیر رحمۃ اللہ کہتے ہیں میں ایک مجلس میں تھا جس میں بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین موجود تھے یہی ذکر ہو رہا تھا کہ اچھی باتوں کا حکم کرنا چاہیئے اور بری باتوں سے روکنا چاہیئے میں اس مجلس میں سب سے چھوٹی عمر کا تھا لیکن جرأت کر کے یہ آیت پڑھ دی اور کہا کہ پھر اس کا کیا مطلب ہو گا ؟ تو سب نے ایک زبان ہو کر مجھے جواب دیا کہ اس کا صحیح مطلب تمہیں معلوم نہیں اور جو مطلب تم لے رہے ہو بالکل غلط ہے مجھے بڑا افسوس ہوا ۔ پھر وہ اپنی باتوں میں مشغول ہو گئے جب اٹھنے کا وقت آیا تو مجھ سے فرمایا تم ابھی بچے ہو بے موقعہ آیت پڑھ دیتے ہو اصلی مطلب تک نہیں پہنچتے بہت ممکن ہے کہ تم اس آیت کے زمانے کو پالو یہ حکم اس وقت ہے جب بخیلی کا دور دورہ ہو خواہش پرستی عام ہو ہر شخص اپنی سمجھ پر نازاں ہو اس وقت انسان خود نیکیوں اور بھلائیوں میں مشغول رہے گمراہوں کی گمراہی اسے کوئی نقصان نہیں پہنچائے گی ۔ حسن رحمۃ اللہ نے اس آیت کی تلاوت کر کے فرمایا ” اس پر بھی اللہ کا شکر ہے اگلے اور پچھلے مومنوں کے ساتھ منافق ضرور رہے جو ان کے اعمال سے بیزار ہی رہے “ ۔ حضرت سعید بن مسیب رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ” جب تم نے اچھی بات کی نصیحت کر دی اور بری بات سے روک دیا پھر بھی کسی نے برائیاں کیں نیکیاں چھوڑیں تو تمہیں کوئی نقصان نہیں “ ۔ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ بھی یہی فرماتے ہیں ۔ کعب رحمۃ اللہ فرماتے ہیں ” اس کا وقت وہ ہے جب مسجد دمشق کا کلیسا ڈھا دیا جائے اور تعصب بڑھ جائے “ ۔