سورة المآئدہ - آیت 59

قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ هَلْ تَنقِمُونَ مِنَّا إِلَّا أَنْ آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْنَا وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلُ وَأَنَّ أَكْثَرَكُمْ فَاسِقُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” فرما دیں اے اہل کتاب ! تم ہم سے اس کے سوا کس چیز کا ؟ کہ ہم اللہ پر ایمان لائے اور اس پر جو ہماری طرف نازل کیا گیا اور اس پر بھی جو اس سے پہلے نازل کیا گیا اور بلاشبہ تم میں سے اکثر نافرمان ہیں۔“ (٥٩)

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

بدترین گروہ اور اس کا انجام حکم ہوتا ہے کہ ’ جو اہل کتاب تمہارے دین پر مذاق اڑاتے ہیں ، ان سے کہو کہ تم نے جو دشمنی ہم سے کر رکھی ہے ، اس کی کوئی وجہ اس کے سوا نہیں کہ ہم اللہ پر اور اس کی تمام کتابوں پر ایمان رکھتے ہیں ‘ ۔ پس دراصل نہ تو یہ کوئی وجہ بغض ہے ، نہ سبب مذمت بہ استثناء منقطع ہے ۔ اور آیت میں ہے «وَمَا نَقَمُوْا مِنْہُمْ اِلَّآ اَنْ یٰؤْمِنُوْا باللّٰہِ الْعَزِیْزِ الْحَمِیْدِ» (85-البروج:8) ، یعنی ’ فقط اس وجہ سے انہوں نے ان سے دشمنی کی تھی کہ وہ اللہ عزیز و حمید کو مانتے تھے ‘ ۔ اور جیسے اور آیت میں «وَمَا نَقَمُوا إِلَّا أَنْ أَغْنَاہُمُ اللہُ وَرَسُولُہُ مِن فَضْلِہِ» ۱؎ (9-التوبۃ:74) ۔ یعنی ’ انہوں نے صرف اس کا انتقام لیا ہے کہ انہیں اللہ نے اپنے فضل سے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مال دے کر غنی کر دیا ہے ‘ ۔ بخاری مسلم کی حدیث میں ہے { ابن جمیل اسی کا بدلہ لیتا ہے کہ وہ فقیر تھا تو اللہ نے اسے غنی کر دیا } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:1468) اور یہ کہ تم میں سے اکثر صراط مستقیم سے الگ اور خارج ہو چکے ہیں ، تم جو ہماری نسبت گمان رکھتے ہو آؤ میں تمہیں بتاؤں کہ اللہ کے ہاں سے بدلہ پانے میں کون بدتر ہے ؟ اور وہ تم ہو کہ کیونکہ یہ خصلتیں تم میں ہی پائی جاتی ہیں ۔ یعنی جسے اللہ نے لعنت کی ہو ، اپنی رحمت سے دور پھینک دیا ہو ، اس پر غصبناک ہوا ہو ، ایسا جس کے بعد رضامند نہیں ہوگا اور جن میں سے بعض کی صورتیں بگاڑ دی ہوں ، بندر اور سور بنا دیئے ہوں ۔ اس کا پورا بیان سورۃ البقرہ میں گزر چکا ہے ۔ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا کہ یہ بندر و سور وہی ہیں ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، جس قوم پر اللہ کا ایسا عذاب نازل ہوتا ہے ، ان کی نسل ہی نہیں ہوتی ، ان سے پہلے بھی سور اور بندر تھے } } ۔ روایت مختلف الفاظ میں صحیح مسلم اور نسائی میں بھی ہے ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2663) مسند میں ہے کہ { جنوں کی ایک قوم سانپ بنا دی گئی تھی ۔ جیسے کہ بندر اور سور بنا دیئے گئے } ۔ ۱؎ (مسند احمد:348/1:صحیح) یہ حدیث بہت ہی غریب ہے ، { انہی میں سے بعض کو غیر اللہ کے پرستار بنا دیئے } ۔ ایک قرأت میں اضافت کے ساتھ طاغوت کی زیر سے بھی ہے ۔ یعنی ’ انہیں بتوں کا غلام بنا دیا ‘ ۔ برید اسلمی رحمہ اللہ اسے «عَابِدُ الطَّاغُوْتِ» پڑھتے تھے ۔ ابو جعفر قاری رحمہ اللہ سے «وَعْبِدَ الطَّاغُوْتُ» بھی منقول ہے جو بعید از معنی ہو جاتا ہے لیکن فی الواقع ایسا نہیں ہوتا مطلب یہ ہے کہ ’ تم ہی وہ ہو ، جنہوں نے طاغوت کی عبادت کی ‘ ۔ الغرض اہل کتاب کو الزام دیا جاتا ہے کہ ہم پر تو عیب گیری کرتے ہو ، حالانکہ ہم موحد ہیں ، صرف ایک اللہ برحق کے ماننے والے ہیں اور تم تو وہ ہو کہ مذکورہ سب برائیاں تم میں پائی گئیں ۔ اسی لیے خاتمے پر فرمایا کہ یہی لوگ باعتبار قدر و منزلت کے بہت برے ہیں اور باعتبار گمراہی کے انتہائی غلط راہ پر پڑے ہوئے ہیں ۔ اس افعل التفصیل میں دوسری جانب کچھ مشارکت نہیں اور یہاں تو سرے سے ہے ہی نہیں ۔ جیسے اس آیت میں «اَصْحٰبُ الْجَنَّۃِ یَوْمَیِٕذٍ خَیْرٌ مٰسْتَــقَرًّا وَّاَحْسَنُ مَقِیْلًا» ۱؎ (25-الفرقان:24) پھر منافقوں کی ایک اور بدخصلت بیان کی جا رہی ہے کہ ’ ظاہر میں تو وہ مومنوں کے سامنے ایمان کا اظہار کرتے ہیں اور ان کے باطن کفر سے بھرے پڑے ہیں ۔ یہ تیرے کفر کی حالت میں پاس آتے ہیں اور اسی حالت میں تیرے پاس سے جاتے ہیں تو تیری باتیں ، تیری نصیحتیں ان پر کچھ اثر نہیں کرتیں ۔ بھلا یہ پردہ داری انہیں کیا کام آئے گی ، جس سے ان کا معاملہ ہے ، وہ تو عالم الغیب ہے ، دلوں کے بھید اس پر روشن ہیں ۔ وہاں جا کر پورا پورا بدلہ بھگتنا پڑے گا ‘ ۔ ’ تو دیکھ رہا ہے کہ یہ لوگ گناہوں پر ، حرام پر اور باطل کے ساتھ لوگوں کے مال پر کس طرح چڑھ دوڑتے ہیں ؟ ان کے اعمال نہایت ہی خراب ہو چکے ہیں ۔ ان کے اولیاء اللہ یعنی عابد و عالم اور ان کے علماء انہیں ان باتوں سے کیوں نہیں روکتے ؟ دراصل ان کے علماء اور پیروں کے اعمال بدترین ہوگئے ہیں ‘ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ” علماء اور فقراء کی ڈانٹ کیلئے اس سے زیادہ سخت آیت کوئی نہیں “ ۔ ضحاک رحمۃ اللہ سے بھی اسی طرح منقول ہے ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ایک خطبے میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا ” لوگو تم سے اگلے لوگ اسی بناء پر ہلاک کر دیئے گئے کہ وہ برائیاں کرتے تھے تو ان کے عالم اور اللہ والے خاموش رہتے تھے ، جب یہ عادت ان میں پختہ ہو گئی تو اللہ نے انہیں قسم قسم کی سزائیں دیں ۔ پس تمہیں چاہیئے کہ بھلائی کا حکم کرو ، برائی سے روکو ، اس سے پہلے کہ تم پر بھی وہی عذاب آ جائیں جو تم سے پہلے والوں پر آئے ، یقین رکھو کہ اچھائی کا حکم برائی سے ممانعت نہ تو تمہارے روزی گھٹائے گا ، نہ تمہارے موت قریب کر دے گا “ ۔ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ { جس قوم میں کوئی اللہ کی نافرمانی کرے اور وہ لوگ باوجود روکنے کی قدرت اور غلبے کے اسے نہ مٹائیں تو اللہ تعالیٰ سب پر اپنا عذاب نازل فرمائے گا } } ۔ ۱؎ (مسند احمد:363/3:حسن) ابوداؤد میں ہے کہ { یہ عذاب ان کی موت سے پہلے ہی آئے گا } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:4339،قال الشیخ الألبانی:حسن) ابن ماجہ میں بھی یہ روایت ہے ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:4009،قال الشیخ الألبانی:صحیح)