صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ
ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام کیا سوائے ان کے راستے کے جن پر غضب ہوا اور وہ گمراہ ہوئے
انعام یافتہ کون؟ اس کا بیان پہلے گزر چکا ہے کہ بندے کے اس قول پر اللہ کریم فرماتا ہے یہ میرے بندے کے لیے ہے اور میرے بندے کے لیے ہے جو کچھ وہ مانگے یہ آیت «صِّرَاطُ الْمُسْتَقِیمُ» کی تفسیر ہے اور نحویوں کے نزدیک یہ اس سے بدل ہے اور عطف بیان بھی ہو سکتی ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» اور جن پر اللہ کا انعام ہوا ان کا بیان سورۃ نساء میں آ چکا ہے فرمان ہے : «وَمَنْ یُطِعِ اللہَ وَالرَّسُولَ فَأُولٰئِکَ مَعَ الَّذِینَ أَنْعَمَ اللہُ عَلَیْہِمْ مِنَ النَّبِیِّینَ وَالصِّدِّیقِینَ وَالشٰہَدَاءِ وَالصَّالِحِینَ وَحَسُنَ أُولٰئِکَ رَفِیقًا» * «ذٰلِکَ الْفَضْلُ مِنَ اللہِ وَکَفَیٰ بِ اللہِ عَلِیمًا» ۱؎ (4-النساء:69-70) الخ یعنی ’اللہ اور اس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کہے پر عمل کرنے والے ان کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ کا انعام ہے جو نبی ، صدیق ، شہید ، صالح لوگ ہیں ، یہ بہترین ساتھی اور اچھے رفیق ہیں ۔ یہ فضل ربانی ہے اور اللہ جاننے والا کافی ہے‘ ۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ اللہ جل شانہ تو مجھے ان فرشتوں ، نبیوں ، صدیقوں ، شہیدوں اور صالحین کی راہ پر چلا جن پر تو نے اپنی اطاعت و عبادت کی وجہ سے انعام نازل فرمایا ۔ یہ آیت ٹھیک «وَمَنْ یُطِعِ اللہَ وَالرَّسُولَ فَأُولٰئِکَ مَعَ الَّذِینَ أَنْعَمَ اللہُ عَلَیْہِمْ» ۱؎ (4-النساء:69) کی طرح ہے ۔ ربیع بن انس رحمہ اللہ کہتے ہیں اس سے مراد انبیاء ہیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اور مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس سے مراد مومن ہیں ۔ وکیع رحمہ اللہ کہتے ہیں مسلمان مراد ہیں ۔ عبدالرحمٰن رحمہ اللہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ مراد ہیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول زیادہ معقول اور قابل تسلیم ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» جمہور کی قرأت میں «غَیْرِ» «رے» کے زیر کے ساتھ ہے اور صفت ہے ۔ زمحشری کہتے ہیں «رے» کی زبر کے ساتھ پڑھا گیا ہے اور حال ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی قرأت یہی ہے اور ابن کثیر رحمہ اللہ سے بھی یہی روایت کی گئی ہے ۔ «عَلَیْہِمْ» میں جو ضمیر ہے وہ اس کا ذوالحال ہے اور «أَنْعَمْتَ» عامل ہے ۔ معنی یہ ہوئے کہ اللہ جل شانہ تو ہمیں سیدھا راستہ دکھا ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام کیا ۔ جو ہدایت اور استقامت والے تھے اور اللہ ، رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اطاعت گزار ، اس کے حکموں پر عمل کرنے والے ، اس کے منع کئے ہوئے کاموں سے رک رہنے والے تھے ۔ مغضوب کون؟ ان کی راہ سے بچا ، جن پر غضب و غصہ کیا گیا ، جن کے ارادے فاسد ہو گئے ، حق کو جان کر پھر اس سے ہٹ گئے اور گم گشتہ راہ لوگوں کے طریقے سے بھی ہمیں بچا لے جو سرے سے علم نہیں رکھتے مارے مارے پھرتے ہیں راہ سے بھٹکے ہوئے حیران و سرگرداں ہیں اور راہ حق کی طرف رہنمائی نہیں کئے جاتے «لَا» کو دوبارہ لا کر کلام کی تاکید کرنا اس لیے ہے کہ معلوم ہو جائے کہ یہاں دو غلط راستے ہیں ، ایک یہود کا دوسرا نصاریٰ کا ۔ بعض نحوی کہتے ہیں کہ «غَیْرَ» کا لفظ یہاں پر استثناء کے لیے ہے تو استثناء منقطع ہو سکتا ہے کیونکہ جن پر انعام کیا گیا ہے ان میں سے استثناء ہونا تو درست ہے ۔ مگر یہ لوگ انعام والوں میں داخل ہی نہ تھے لیکن ہم نے جو تفسیر کی ہے یہ بہت اچھی ہے ۔ عرب شاعروں کے شعر میں ایسا پایا جاتا ہے کہ وہ موصوف کو حذف کر دیتے ہیں اور صرف صفت بیان کر دیا کرتے ہیں ۔ اسی طرح اس آیت میں بھی صفت کا بیان ہے اور موصوف محذوف ہے ۔ «غَیْرِ الْمَغْضُوبِ» سے مراد «غَیْرِ صِرَاطِ الْمَغْضُوبِ» ہے ۔ مضاف «إِلَیْہِ» کے ذکر سے کفایت کی گئی اور مضاف بیان نہ کیا گیا اس لیے کہ نشست الفاظ ہی اس پر دلالت کر رہی ہے ۔ پہلے دو مرتبہ یہ لفظ آ چکا ہے ۔ بعض کہتے ہیں «وَلَا الضَّالِّینَ» میں «لَا» زائد ہے اور ان کے نزدیک تقدیر کلام اس طرح ہے «غَیْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَیْہِمْ وَالضَّالِّینَ» اور اس کی شہادت عرب شاعروں کے شعر سے بھی ملتی ہے لیکن صحیح بات وہی ہے جو ہم پہلے لکھ چکے ہیں ۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے «غَیْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَیْہِمْ وَغَیْرِ الضَّالِّینَ» پڑھنا صحیح سند سے مروی ہے اور اسی طرح سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے اور یہ محمول ہے اس پر کہ ان بزرگوں سے یہ بطور تفسیر صادر ہوا ۔ تو ہمارے قول کی تائید ہوئی کہ «لَا» نفی کی تاکید کے لیے ہی لایا گیا ہے تاکہ یہ وہم ہی نہ ہو کہ یہ «أَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ» پر عطف ہے اور اس لیے بھی کہ دونوں راہوں کا فرق معلوم ہو جائے تاکہ ہر شخص ان دونوں سے بھی بچتا رہے ۔ اہل ایمان کا طریقہ تو یہ ہے کہ حق کا علم بھی ہو اور حق پر عمل بھی ہو ۔ یہودیوں کے ہاں علم نہیں اور نصاریٰ کے ہاں عمل نہیں اسی لیے یہودیوں پر غضب ہوا اور نصرانیوں کو گمراہی ملی ۔ اس لیے کہ علم کے باوجود عمل کو چھوڑنا غضب کا سبب ہے اور نصرانی گو ایک چیز کا قصد تو کرتے ہیں مگر اس کے باوجود صحیح راستہ کو نہیں پا سکتے اس لیے کہ ان کا طریقہ کار غلط ہے اور اتباع حق سے ہٹے ہوئے ہیں یوں تو غضب اور گمراہی ان دونوں جماعتوں کے حصہ میں ہے لیکن یہودی غضب کے حصہ میں پیش پیش ہیں ۔ جیسے کہ اور جگہ قرآن کریم میں ہے : «مَنْ لَعَنَہُ اللہُ وَغَضِبَ عَلَیْہِ» ۱؎ (5-المائدۃ:60) الخ اور نصرانی ضلالت میں بڑھے ہوئے ہیں ۔ فرمان الٰہی ہے : «قَدْ ضَلٰوا مِنْ قَبْلُ وَأَضَلٰوا کَثِیرًا وَضَلٰوا عَنْ سَوَاءِ السَّبِیلِ» ۲؎ (5-المائدۃ:77) الخ یعنی ’یہ پہلے ہی سے گمراہ ہیں اور بہتوں کو گمراہ کر بھی چکے ہیں اور سیدھی راہ سے بھٹکے ہوئے ہیں‘ ۔ اس کی تائید میں بہت سی حدیثیں اور روایتیں پیش کی جا سکتی ہیں ۔ مسند احمد میں ہے ۔ سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لشکر نے میری پھوپھی اور چند اور لوگوں کو گرفتار کر کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا تو میری پھوپھی نے کہا میری خبرگیری کرنے والا غائب ہے اور میں عمر رسیدہ بڑھیا ہوں جو کسی خدمت کے لائق نہیں آپ مجھ پر احسان کیجئے اور مجھے رہائی دیجئیے ۔ اللہ تعالیٰ آپ پر بھی احسان کرے گا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ تیری خیر خبر لینے والا کون ہے ؟ اس نے کہا عدی بن حاتم آپ نے فرمایا وہی جو اللہ اور اس کے رسول سے بھاگتا پھرتا ہے ؟ پھر آپ نے اسے آزاد کر دیا ۔ جب لوٹ کر آپ آئے تو آپ کے ساتھ ایک شخص تھے اور غالباً وہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ تھے آپ نے فرمایا : لو ان سے سواری مانگ لو ۔ میری پھوپھی نے ان سے درخواست کی جو منظور ہوئی اور سواری مل گئی ۔ وہ یہاں سے آزاد ہو کر میرے پاس آئیں اور کہنے لگیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سخاوت نے تیرے باپ حاتم کی سخاوت کو بھی ماند کر دیا ۔ آپ کے پاس جو آتا ہے وہ خالی ہاتھ واپس نہیں جاتا ۔ یہ سن کر میں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا میں نے دیکھا کہ چھوٹے بچے اور بڑھیا عورتیں بھی آپ کی خدمت میں آتی جاتی ہیں اور آپ ان سے بھی بےتکلفی کے ساتھ بولتے چالتے ہیں ۔ اس بات نے مجھے یقین دلایا دیا کہ آپ قیصر و کسریٰ کی طرح بادشاہت اور وجاہت کے طلب کرنے والے نہیں ۔ آپ نے مجھے دیکھ کر فرمایا : ”عدی «لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ» کہنے سے کیوں بھاگتے ہو ؟ کیا اللہ کے سوا اور کوئی عبادت کے لائق ہے ؟ « اللہُ أَکْبَرُ» کہنے سے کیوں منہ موڑتے ہو ؟ کیا اللہ عزوجل سے بھی بڑا کوئی ہے ؟“ مجھ پر ان کلمات نے آپ کی سادگی اور بےتکلفی نے ایسا اثر کیا کہ میں فوراً کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گیا ۔ جس سے آپ بہت خوش ہوئے اور فرمانے لگے «الْمَغْضُوبِ عَلَیْہِمْ» سے مراد یہود ہیں اور «الضَّالِّینَ» سے مراد نصاریٰ ہیں} ۱؎ ۔ (سنن ترمذی:2954،قال الشیخ الألبانی:حسن) ایک اور حدیث میں ہے کہ سیدنا عدی رضی اللہ عنہ کے سوال پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تفسیر ارشاد فرمائی تھی ۲؎۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:209،195:حسن) اس حدیث کی بہت سی سندیں ہیں اور مختلف الفاظ سے مروی ہے ۔ بنوقین کے ایک شخص نے وادی القریٰ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی سوال کیا آپ نے جواب میں یہی فرمایا ۳؎ ۔ (مسند احمد:5/32:حسن بالشواھد) بعض روایتوں میں ان کا نام عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ابن مردویہ میں سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے بھی یہی روایت ہے ۔ سیدنا عبداللہ بن عباس ، سیدنا ابن مسعود اور بہت سے صحابیوں رضی اللہ عنہم سے بھی یہ تفسیر منقول ہے ۔ ربیع بن انس ، عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم وغیرہ بھی یہی فرماتے ہیں بلکہ ابن ابی حاتم تو فرماتے ہیں مفسرین میں اس بارے میں کوئی اختلاف ہی نہیں ۔ ان ائمہ کی اس تفسیر کی دلیل ایک تو وہ حدیث ہے جو پہلے گزری ۔ دوسری سورۃ البقرہ کی یہ آیت جس میں بنی اسرائیل کو خطاب کر کے کہا گیا ہے : «بِئْسَمَا اشْتَرَوْا بِہِ أَنْفُسَہُمْ أَنْ یَکْفُرُوا بِمَا أَنْزَلَ اللہُ بَغْیًا أَنْ یُنَزِّلَ اللہُ مِنْ فَضْلِہِ عَلَیٰ مَنْ یَشَاءُ مِنْ عِبَادِہِ فَبَاءُوا بِغَضَبٍ عَلَیٰ غَضَبٍ وَلِلْکَافِرِینَ عَذَابٌ مُہِینٌ» ۱؎ (2-البقرۃ:90) اس آیت میں ہے کہ ان پر غضب پر غضب نازل ہوا ۔ اور سورۃ المائدہ کی آیت «قُلْ ہَلْ أُنَبِّئُکُمْ بِشَرٍّ مِنْ ذٰلِکَ مَثُوبَۃً عِنْدَ اللہِ مَنْ لَعَنَہُ اللہُ وَغَضِبَ عَلَیْہِ وَجَعَلَ مِنْہُمُ الْقِرَدَۃَ وَالْخَنَازِیرَ وَعَبَدَ الطَّاغُوتَ أُولٰئِکَ شَرٌّ مَکَانًا وَأَضَلٰ عَنْ سَوَاءِ السَّبِیلِ» ۲؎ (5-المائدۃ:60) میں بھی ہے کہ ان پر غضب الہٰی نازل ہوا اور جگہ فرمان الہٰی ہے : «لُعِنَ الَّذِینَ کَفَرُوا مِنْ بَنِی إِسْرَائِیلَ عَلَیٰ لِسَانِ دَاوُودَ وَعِیسَی ابْنِ مَرْیَمَ ذٰلِکَ بِمَا عَصَوْا وَکَانُوا یَعْتَدُونَ * کَانُوا لَا یَتَنَاہَوْنَ عَنْ مُنْکَرٍ فَعَلُوہُ لَبِئْسَ مَا کَانُوا یَفْعَلُونَ» ۳؎ (5-المائدۃ:79) یعنی ’بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر کیا ان پر لعنت کی گئی ۔ دواؤد علیہ السلام اور عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کی زبانی یہ ان کی نافرمانی اور حد سے گزر جانے کی وجہ سے ہے ۔ یہ لوگ کسی برائی کے کام سے آپس میں روک ٹوک نہیں کرتے تھے یقیناً ان کے کام بہت برے تھے‘ ۔ اور تاریخ کی کتابوں میں ہے کہ زید بن عمرو بن نفیل جو کہ دین خالص کی تلاش میں اپنے ساتھیوں سمیت نکلے اور ملک شام میں آئے تو ان سے یہودیوں نے کہا کہ آپ ہمارے دین میں تب تک داخل نہیں ہو سکتے جب تک غضب الہٰی کا ایک حصہ نہ پا لو ۔ انہوں نے جواب دیا کہ اس سے بچنے کے لیے تو دین حق کی تلاش میں نکلے ہیں پھر اسے کیسے قبول کر لیں ؟ پھر نصرانیوں سے ملے انہوں نے کہا جب تک اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا مزا نہ چکھ لو تب تک آپ ہمارے دین میں نہیں آ سکتے ۔ انہوں نے کہا ہم یہ بھی نہیں کر سکتے چنانچہ وہ اپنی فطرت پر ہی رہے ۔ بتوں کی عبادت اور قوم کا دین چھوڑ دیا لیکن یہودیت یا نصرانیت اختیار نہ کی ۔ البتہ زید کے ساتھیوں نے عیسائی مذہب قبول کر لیا ۔ اس لیے کہ یہودیوں کے مذہب سے یہ ملتا جلتا تھا ۔ انہی میں ورقہ بن نوفل تھے انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا زمانہ ملا اور ہدایت الہٰی نے ان کی رہبری کی اور یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے اور جو وحی اس وقت تک اتری تھی اس کی تصدیق کی [رضی اللہ عنہ] ۔ مسئلہ «ضَّادِ» اور «ظَّاءِ» کی قرأت میں بہت باریک فرق ہے اور ہر ایک کے بس کا نہیں ۔ اس لیے علمائے کرام کا صحیح مذہب یہ ہے کہ یہ فرق معاف ہے ، «ضَّادِ» کا صحیح مخرج تو یہ ہے کہ زبان کا اول کنارہ اور اس کے پاس کی داڑھیں اور «ظَّاءِ» کا مخرج زبان کا ایک طرف اور سامنے والے اوپر کے دو دانت کے کنارے ۔ دوسرے یہ کہ یہ دونوں حرف «مَجْہُورَۃِ» اور «رِّخْوَۃِ» اور «مُطْبَقَۃِ» ہیں پس اس شخص کو جسے ان دونوں میں تمیز کرنی مشکل معلوم ہو ، اسے معاف ہے کہ «ضَّادِ» کو «ظَّاءِ» کی طرح پڑھ لے ۔ ایک حدیث میں ہے کہ {میں «ضَّادِ» کو سب سے زیادہ صحیح پڑھنے والا ہوں} ۱؎ (کشف الخفاء:200/1:لااصل لہ) لیکن یہ حدیث بالکل بے اصل اور لاپتہ ہے ۔ الحمد کا تعارف و مفہوم یہ مبارک سورت نہایت کار آمد مضامین کا مجموعہ ہے ان سات آیتوں میں اللہ تعالیٰ کی حمد ، اس کی بزرگی ، اس کی ثنا و صفت اور اس کے پاکیزہ ناموں اور اس کی بلند و بالا صفتوں کا بیان ہے ساتھ ہی قیامت کے دن کا ذکر ہے اور بندوں کو ارشاد ہے کہ وہ اس مالک سے سوال کریں اس کی طرف تضرع و زاری کریں اپنی مسکینی اور بےکسی اور بےبسی کا اقرار کریں اور اس کی عبادت خلوص کے ساتھ کریں اور اس کی توحید الوہیت کا اقرار کریں ۔ اسے شریک، نظیر اور مثل سے پاک اور برتر جانیں۔ صراط مستقیم اور اس پر ثابت قدمی اس سے طلب کریں تاکہ یہی ہدایت انہیں قیامت والے دن پل صراط سے بھی پار اتارے اور نبیوں ، صدیقوں ، شہیدوں اور صالحوں کے پڑوس میں جنت الفردوس میں جگہ دلائے ۔ ساتھ ہی اس سورت میں نیک اعمال کی ترغیب ہے تاکہ قیامت کے دن نیکوں کا ساتھ ملے اور باطل راہوں پر چلنے سے ڈراوا پیدا ہو تاکہ قیامت کے دن بھی یہ باطل پرست یہود و نصاریٰ کی جماعت سے دور ہی رہیں ۔ اس باریک نکتہ پر بھی غور کیجئے کہ انعام کی اسناد تو اللہ تعالیٰ کی طرف کی گئی اور «أَنْعَمْتَ» کہا گیا لیکن غضب کی اسناد اللہ کی طرف نہیں کی گئی یہاں فاعل حذف کر دیا اور «الْمَغْضُوبِ عَلَیْہِمْ» کہا گیا اس میں پروردگار عالم کی جناب میں ادب کیا گیا ہے ۔ دراصل حقیقی فاعل اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔ جیسے اور جگہ ہے : «غَضِبَ اللہُ عَلَیْہِمْ» ۱؎ (58-المجادلۃ:14) اور اسی طرح ضلالت کی اسناد بھی ان کی طرف کی کئی جو گمراہ ہیں ۔ حالانکہ اور جگہ ہے : «وَمَنْ یَہْدِ اللہُ فَہُوَ الْمُہْتَدِ وَمَنْ یُضْلِلْ» ۲؎ (17-الإسراء:97) الخ یعنی ’اللہ جسے راہ دکھائے وہ راہ یافتہ ہے اور جسے وہ گمراہ کر دے اس کا رہنما کوئی نہیں‘ ۔ اور جگہ فرمایا : «مَنْ یُضْلِلِ اللہُ فَلَا ہَادِیَ لَہُ» (7-الأعراف:186) ۳؎ الخ یعنی ’جسے اللہ گمراہ کر دے اس کا ہادی کوئی نہیں وہ تو اپنی سرکشی میں بہکے رہتے ہیں‘ ۔ اسی طرح کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں جن سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ راہ دکھانے والا گمراہ کرنے والا صرف سبحانہ و تعالیٰ ہی ہے ۔ قدریہ فرقہ جو ادھر ادھر کی متشابہ آیتوں کو دلیل بنا کر کہتا ہے کہ بندے خود مختار ہیں وہ خود جو پسند کرتے ہیں وہی کرتے ہیں ۔ یہ غلط ہے ، صریح اور صاف صاف آیتیں ان کے رد میں موجود ہیں لیکن باطل پرست فرقوں کا یہی قاعدہ ہے کہ صراحت کو چھوڑ کر متشابہ کے پیچھے لگا کرتے ہیں ۔ صحیح حدیث میں ہے کہ جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو متشابہ آیتوں کے پیچھے لگتے ہیں تو سمجھ لو کہ انہی لوگوں کا اللہ تعالیٰ نے نام لیا ہے تم ان کو چھوڑ دو ۱؎ ۔ (صحیح بخاری:4547) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اشارہ اس فرمان میں اس آیت شریف کی طرف ہے «فَأَمَّا الَّذِینَ فِی قُلُوبِہِمْ زَیْغٌ فَیَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَہَ مِنْہُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَۃِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِیلِہِ» ۲؎ (3-آل عمران:7) الخ یعنی ’جن لوگوں کے دل میں کجی ہے وہ متشابہ ہے کے پیچھے لگتے ہیں فتنوں اور تاویل کو ڈھونڈنے کے لیے‘ ۔ پس «الْحَمْدُ لِلّٰہ» بدعتیوں کے لیے قرآن پاک میں صحیح دلیل کوئی نہیں ۔ قرآن کریم تو حق و باطل ہدایت و ضلالت میں فرق کرنے کے لیے آیا ہے اس میں تناقض اور اختلاف نہیں ۔ یہ تو اللہ حکیم و حمید کا نازل کردہ ہے ۔ آمین اور سورہ فاتحہ سورۃ فاتحہ کو ختم کر کے آمین کہنا مستحب ہے ۔ آمین مثل «یاسین» کے ہے اور آمین بھی کہا گیا ہے اور اس کے معنی یہ ہیں کہ ”اے اللہ تو قبول فرما“ ۔ آمین کہنے کے مستحب ہونے کی دلیل وہ حدیث ہے جو مسند احمد ، ابوداؤد اور ترمذی میں سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں {میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم «غَیْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّالِّینَ» کہہ کر «آمِینَ» کہتے تھے اور آواز دراز کرتے تھے} ۱؎ ۔ (سنن ترمذی:248،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ابوداؤد میں ہے {آواز بلند کرتے تھے} ۲؎ ۔ (سنن ابوداود:392،قال الشیخ الألبانی:صحیح) امام ترمذی رحمہ اللہ اس حدیث کو حسن کہتے ہیں ۔ سیدنا علی ، سیدنا ابن مسعود ، سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمین پہلی صف والے لوگ جو آپ کے قریب ہوتے سن لیتے} ۳؎ ۔ (سنن ابوداود:934،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) ابوداؤد اور ابن ماجہ میں یہ حدیث ہے ۔ ابن ماجہ میں یہ بھی ہے کہ {آمین کی آواز سے مسجد گونج اٹھتی تھی} ۴؎ ۔ (سنن ابن ماجہ:853،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) دارقطنی میں بھی یہ حدیث ہے ۵؎ ۔ (دارقطنی:335/1:حسن) اور امام دارقطنی رحمہ اللہ بتاتے ہیں کہ {سیدنا بلال رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہتے تھے ۔ مجھ سے پہلے آمین نہ کہا کیجئے} ۶؎ ۔ (سنن ابوداود:937،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) حسن بصری اور جعفر صادق رحمہ اللہ علیہم سے آمین کہنا مروی ہے ۔ جیسے کہ «آمِّینَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ» ۷؎ (5-المائدۃ:2) قرآن میں ہے ۔ ہمارے اصحاب وغیرہ کہتے ہیں جو نماز میں نہ ہو اسے بھی آمین کہنا چاہیئے ۔ ہاں جو نماز میں ہو اس پر تاکید زیادہ ہے ۔ نمازی خود اکیلا ہو ، خواہ مقتدی ہو ، خواہ امام ہو ، ہر حالت میں آمین کہے ۔ صحیحین میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”جب امام آمین کہے تم بھی آمین کہو جس کی آمین فرشتوں کی آمین سے مل جائے اس کے تمام سابقہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں“} ۱؎ ۔ (صحیح بخاری:786) صحیح مسلم میں ہے کہ {نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”جب تم میں سے کوئی اپنی نماز میں آمین کہتا ہے اور فرشتے آسمان میں آمین کہتے ہیں اور ایک کی آمین دوسرے کی آمین سے مل جاتی ہے تو اس کے تمام پہلے گناہ معاف ہو جاتے ہیں“} ۲؎ ۔ (صحیح مسلم:410) مطلب یہ ہے کہ اس کی آمین کا اور فرشتوں کی آمین کا وقت ایک ہی ہو جائے یا موافقت سے مراد قبولیت میں موافق ہونا ہے یا اخلاص میں ۔ صحیح مسلم میں سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ {جب امام «وَلَا الضَّالِّینَ» کہے تو آمین کہو اللہ قبول فرمائے گا} ۳؎ ۔ (صحیح مسلم:404) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے {نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا آمین کے کیا معنی ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اے اللہ تو کر“} ۱؎ ۔ (تفسیر کشاف:18/1:ضعیف) جوہری کہتے ہیں اس کے معنی ”اسی طرح ہو“ ہیں ۔ امام ترمذی کہتے ہیں اس کے معنی ہیں کہ ”ہماری امیدوں کو نہ توڑ“ ۔ اکثر علماء فرماتے ہیں اس کے معنی ”اے اللہ تو ہماری دعا قبول فرما“ کے ہیں ۔ مجاہد ، جعفر صادق ، ہلال بن سیاف رحمہ اللہ علیہم فرماتے ہیں کہ آمین اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مرفوعاً بھی یہ مروی ہے لیکن صحیح نہیں ۲؎ ۔ (عبدالرزاق:2651) امام مالک رحمہ اللہ کے اصحاب کا مذہب ہے کہ امام آمین نہ کہے مقتدی آمین کہے کیونکہ موطا مالک کی حدیث میں ہے کہ {جب امام «وَلَا الضَّالِّینَ» کہے تو تم آمین کہو} ۳؎ ۔ (صحیح بخاری:796) اسی طرح ان کی دلیل کی تائید میں صحیح مسلم والی سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی یہ روایت بھی آتی ہے کہ {نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”جب امام «وَلَا الضَّالِّینَ» کہے تو تم آمین کہو“} ۴؎ ۔ (صحیح مسلم:404) لیکن بخاری و مسلم کی حدیث پہلے بیان ہو چکی کہ {جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو} ۵؎ ۔ (صحیح بخاری:786) اور یہ بھی حدیث میں ہے کہ {نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم «وَلَا الضَّالِّینَ» پڑھ کر آمین کہتے تھے} ۶؎ ۔ (سنن ترمذی:248،قال الشیخ الألبانی:صحیح) آمین باآواز بلند جہری نمازوں میں مقتدی اونچی آواز سے آمین کہے یا نہ کہے ، اس میں ہمارے ساتھیوں کا اختلاف ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر امام آمین کہنی بھول گیا ہو تو مقتدی باآواز بلند آمین کہیں ۔ اگر امام نے خود اونچی آواز سے آمین کہی ہو تو نیا قول یہ ہے کہ مقتدی باآواز بلند نہ کہیں ۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا یہی مذہب ہے ۔ اور ایک روایت میں امام مالک رحمہ اللہ سے بھی مروی ہے اس لیے کہ نماز کے اور اذکار کی طرح یہ بھی ایک ذکر ہے تو نہ وہ صرف بلند آواز سے پڑھے جاتے ہیں نہ یہ بلند آواز سے پڑھا جائے ۔ لیکن پہلا قول یہ ہے کہ آمین بلند آواز سے کہی جائے ۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا بھی یہی مذہب ہے اور امام مالک رحمہ اللہ کا بھی دوسری روایت کے اعتبار سے یہی مذہب ہے اور اس کی دلیل وہی حدیث ہے جو پہلے بیان ہو چکی کہ آمین کی آواز سے مسجد گونج اٹھتی تھی ۔ ہمارے یہاں پر ایک تیسرا قول بھی ہے کہ اگر مسجد چھوٹی ہو تو مقتدی باآواز بلند آمین نہ کہیں اس لیے کہ وہ امام کی قرأت سنتے ہیں اور اگر بڑی ہو تو اونچی آواز سے آمین کہیں تاکہ مسجد کے کونے کونے میں آمین پہنچ جائے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» [صحیح مسئلہ یہ ہے کہ جن نمازوں میں اونچی آواز سے قرأت پڑھی جاتی ہے ان میں اونچی آواز سے آمین کہنی چاہیئے ۔ خواہ مقتدی ہو خواہ امام ہو ، خواہ منفرد ، مترجم] مسند احمد میں صرف سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یہودیوں کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ ہماری تین چیزوں پر یہودیوں کو اتنا بڑا حسد ہے کہ کسی اور چیز پر نہیں ۔ ایک تو جمعہ پر کہ اللہ نے ہمیں اس کی ہدایت کی اور یہ بہک گئے دوسرے قبلہ ، تیسرے ہمارا امام کے پیچھے آمین کہنا} ۱؎ ۔ (سلسلۃ احادیث صحیحہ البانی:691،صحیح بالشواھد) ابن ماجہ کی حدیث میں یوں ہے کہ {یہودیوں کو سلام پر اور آمین پر جتنی چڑ ہے اتنی کسی اور چیز پر نہیں} ۲؎ ۔ (سنن ابن ماجہ:856،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اور سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں ہے کہ {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارا جس قدر حسد یہودی آمین پر کرتے ہیں اس قدر حسد اور امر پر نہیں کرتے تم بھی آمین بکثرت کہا کرو} ۳؎ ۔ (سنن ابن ماجہ:857،قال الشیخ الألبانی:ضعیف جدا) اس کی اسناد میں طلحہ بن عمرو راوی ضعیف ہیں ۔ ابن مردویہ میں بروایت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ {آپ نے فرمایا آمین اللہ تعالیٰ کی مہر ہے اپنے مومن بندوں پر} ۴؎ ۔ (سلسلۃ احادیث ضعیفہ البانی:1487،ضعیف) سیدنا انس رضی اللہ عنہ والی حدیث میں ہے کہ {نماز میں آمین کہنی اور دعا پر آمین کہنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے عطا کی گئی ہے جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دی گئی ۔ ہاں اتنا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کی ایک خاص دعا پر ہارون علیہ السلام آمین کہتے تھے ۔ تم اپنی دعاؤں کو آمین پر ختم کیا کرو۔ اللہ تعالیٰ انہیں تمہارے حق میں قبول فرمایا کرے گا} ۵؎ ۔ (ابن خزیمہ:1586:ضعیف) اس حدیث کو پیش نظر رکھ کر قرآن کریم کے ان الفاظ کو دیکھئے جن میں موسیٰ علیہ السلام کی دعا : «رَبَّنَا إِنَّکَ آتَیْتَ فِرْعَوْنَ وَمَلَأَہُ زِینَۃً وَأَمْوَالًا فِی الْحَیَاۃِ الدٰنْیَا رَبَّنَا لِیُضِلٰوا عَنْ سَبِیلِکَ رَبَّنَا اطْمِسْ عَلَیٰ أَمْوَالِہِمْ وَاشْدُدْ عَلَیٰ قُلُوبِہِمْ فَلَا یُؤْمِنُوا حَتَّیٰ یَرَوُا الْعَذَابَ الْأَلِیمَ» ۶؎ (10-یونس:88) ہے الخ یعنی ’الہٰی تو نے فرعون اور فرعونیوں کو دنیا کی زینت اور مال دنیا زندگانی میں عطا فرمایا ہے جس سے وہ تیری راہ سے دوسروں کو بہکا رہے ہیں ۔ اللہ ان کے مال برباد کر اور ان کے دل سخت کر ، جب تک درد ناک عذاب نہ دیکھ لیں یہ ایمان نہ لائیں‘ ۔ موسیٰ علیہ السلام کی اس دعا کی قبولت کا اعلان ان الفاظ میں ہوتا ہے : «قَدْ أُجِیبَتْ دَعْوَتُکُمَا فَاسْتَقِیمَا وَلَا تَتَّبِعَانِّ سَبِیلَ الَّذِینَ لَا یَعْلَمُونَ» ۷؎ (10-یونس:89) الخ یعنی ’تم دونوں کی دعا قبول کی گئی ، تم مضبوط رہو اور بےعلموں کی راہ نہ جاؤ‘ ۔ دعا صرف موسیٰ علیہ السلام کرتے تھے اور ہارون علیہ السلام صرف آمین کہتے تھے لیکن قرآن نے دعا کی نسبت دونوں کی طرف کی ۔ اس سے بعض لوگوں نے استدلال کیا ہے کہ جو شخص کسی دعا پر آمین کہے وہ گویا خود وہ دعا کر رہا ہے ۔ اب اس استدلال کو سامنے رکھ کر وہ قیاس کرتے ہیں کہ مقتدی قرأت نہ کرے ، اس لیے کہ اس کا سورۃ فاتحہ کے بعد آمین کہنا پڑھنے کے قائم مقام ہے اور اس حدیث کو بھی دلیل میں لاتے ہیں کہ جس کا امام ہو تو اس کے امام کی قرأت اس کی قرأت ہے ۔ ( مسند احمد ) سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آمین میں مجھ سے سبقت نہ کیا کیجئے اس کھینچا تانی سے مقتدی پر جہری نمازوں میں «الْحَمْدُ» کا نہ پڑھنا ثابت کرنا چاہتے ہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» [یہ یاد رہے کہ اس کی مفصل بحث پہلے گزر چکی ہے] سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”جب امام «غَیْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّالِّینَ» کہہ کر آمین کہتا ہے آسمان والوں کی آمین زمین والوں کی آمین سے مل جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ بندے کے تمام پہلے گناہ معاف فرما دیتا ہے ۔ آمین نہ کہنے والے کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص ایک قوم کے ساتھ مل کر غزوہ کرے ، غالب آئے ، مال غنیمت جمع کرے ، اب قرعہ ڈال کر حصہ لینے لگے تو اس شخص کے نام قرعہ نکلے ہی نہیں اور کوئی حصہ نہ ملے وہ کہے ” یہ کیوں ؟ “ تو جواب ملے تیرے آمین نہ کہنے کی وجہ سے “} ۱؎ ۔ (ابویعلی فی مسندہ:6411:ضعیف)