لَّٰكِنِ اللَّهُ يَشْهَدُ بِمَا أَنزَلَ إِلَيْكَ ۖ أَنزَلَهُ بِعِلْمِهِ ۖ وَالْمَلَائِكَةُ يَشْهَدُونَ ۚ وَكَفَىٰ بِاللَّهِ شَهِيدًا
لیکن اللہ گواہی دیتا ہے اس کے بارے میں جو اس نے آپ کی طرف نازل کیا ہے کہ اس نے اسے اپنے علم سے نازل کیا ہے اور فرشتے بھی گواہی دیتے ہیں اور اللہ گواہ کافی ہے۔“ (١٦٦)
ہمارے ایمان اور کفر سے اللہ تعالٰی بےنیاز ہے چونکہ سابقہ آیتوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا ثبوت تھا اور آپ کی نبوت کے منکروں کی تردید تھی ، اس لیے یہاں فرماتا ہے کہ گو کچھ لوگ تجھے جھٹلائیں ، تیری مخالفت خلاف کریں لیکن اللہ خود تیری رسالت کا شاہد ہے ۔ وہ فرماتا ہے کہ« لَّا یَأْتِیہِ الْبَاطِلُ مِن بَیْنِ یَدَیْہِ وَلَا مِنْ خَلْفِہِ ۖ تَنزِیلٌ مِّنْ حَکِیمٍ حَمِیدٍ» ۱؎ (41-فصلت:42) ’ اس نے اپنی پاک کتاب قرآن مجید و فرقان حمید تجھ پر نازل فرمایا ہے جس کے پاس باطل پھٹک ہی نہیں سکتا ۔ ‘ اس کتاب میں ان چیزوں کا علم ہے جن پر اس نے اپنے بندوں کو مطلع فرمانا چاہا یعنی دلیلیں ، ہدایت اور فرقان ، اللہ کی رضا مندی اور ناراضگی کے احکام اور ماضی کی اور مستقبل کی خبریں ہیں اور اللہ تبارک و تعالیٰ کی وہ مقدس صفتیں ہیں جنہیں نہ تو کؤی نبی مرسل جانتا ہے اور نہ کوئی مقرب فرشتہ ، بجز اس کے کہ وہ خود معلوم کرائے ۔ جیسے ارشاد ہے آیت «وَلَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیْءٍ مِّنْ عِلْمِہٖٓ اِلَّا بِمَا شَاۗءَ» ۱؎ (2-البقرۃ:255)( 2 ۔ البقرہ : 255 ) اور فرماتا ہے آیت «وَلَا یُحِیْطُوْنَ بِہٖ عِلْمًا» (20-طہ:110) عطاء بن سائب رحمہ اللہ جب ابوعبدالرحمٰن سلمی سے قرآن شریف پڑھ چکتے ہیں تو آپ فرماتے ہیں تو نے اللہ کا علم حاصل کیا ہے پس آج تجھ سے افضل کوئی نہیں ، بجز اس کے جو عمل میں تجھ سے بڑھ جائے ، پھر آپ نے آیت«أَنزَلَہُ بِعِلْمِہِ ۖ وَالْمَلَائِکَۃُ یَشْہَدُونَ ۚ وَکَفَیٰ بِ اللہِ شَہِیدًا » ۱؎ (4-النساء:166) پڑھی ۔ پھر فرماتا ہے کہ اللہ کی شہادت کے ساتھ ہی ساتھ فرشتوں کی شہادت بھی ہے کہ تیرے پاس جو علم آیا ہے ، جو وحی تجھ پر اتری ہے وہ بالکل سچ اور سراسر حق ہے ۔ یہودیوں کی ایک جماعت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتی ہے تو { آپ فرماتے ہیں خدا کی قسم مجھے پختہ طور پر معلوم ہے کہ تم میری رسالت کا علم رکھتے ہو ۔ } ان لوگوں نے اس کا انکار کر دیا پس اللہ عزوجل نے یہ آیت اتاری ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:10854:ضعیف) پھر فرماتا ہے جن لوگوں نے کفر کیا ، حق کی اتباع نہ کی ، بلکہ اور لوگوں کو بھی راہ حق سے روکتے رہے ، یہ صحیح راہ سے ہٹ گئے ہیں اور حقیقت سے الگ ہو گئے اور ہدایت سے ہٹ گئے ہیں ۔ یہ لوگ جو ہماری آیتوں کے منکر ہیں ، ہماری کتاب کو نہیں مانتے ، اپنی جان پر ظلم کرتے ہیں ہماری راہ سے روکتے اور رکتے ہیں ، ہمارے منع کردہ کام کو کر رہے ہیں ، ہمارے احکام سے منہ پھیرتے ہیں ، انہیں ہم بخشیں گے نہ خیر و بھلائی کی طرف ان کی رہبری کریں گے ۔ ہاں انہیں جہنم کا راستہ دکھا دیں گے جس میں وہ ہمیشہ پڑے رہیں گے ۔ لوگو ! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے حق لے کر اللہ کے رسول آ گئے ، تم اس پر ایمان لاؤ اور اس کی فرمانبرداری کرو ، یہی تمہارے حق میں اچھا ہے اور اگر تم کفر کرو گے تو اللہ تم سے بے نیاز ہے ، تمہارا ایمان نہ اسے نفع پہنچائے ، نہ تمہارا کفر اسے ضرر پہنچائے ۔ زمین و آسمان کی تمام چیزیں اس کی ملکیت میں ہیں ۔ یہی قول موسیٰ علیہ السلام کا اپنی قوم سے تھا کہ تم اور روئے زمین کے تمام لوگ بھی اگر کفر پر اجماع کر لیں تو اللہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ۔ وہ تمام جہان سے بےپرواہ ہے ، وہ علیم ہے ، جانتا ہے کہ مستحق ہدایت کون ہے اور مستحق ضلالت کون ہے ؟ وہ حکیم ہے اس کے اقوال ، اس کے افعال ، اس کی شرع اس کی تقدیر سب حکمت سے پر ہیں ۔