وَلِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۗ وَلَقَدْ وَصَّيْنَا الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ وَإِيَّاكُمْ أَنِ اتَّقُوا اللَّهَ ۚ وَإِن تَكْفُرُوا فَإِنَّ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۚ وَكَانَ اللَّهُ غَنِيًّا حَمِيدًا
اور زمین و آسمانوں کی ہر ہر چیز اللہ تعالیٰ ہی کی ملکیت ہے اور ہم نے ان لوگوں کو جو تم سے پہلے کتاب دیے گئے تھے اور تمہیں بھی یہی حکم دیا ہے کہ اللہ سے ڈرتے رہو اور اگر تم کفر کرو گے تو یاد رکھو اللہ کے لیے ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اور اللہ تعالیٰ غنی اور تعریف کیا گیا ہے
مانگو تو صرف اللہ اعلیٰ و اکبر سے مانگو اللہ تعالیٰ مطلع کرتا ہے کہ زمین و آسمان کا مالک اور حاکم وہی ہے فرماتا ہے جو احکام تمہیں دیئے جاتے ہیں کہ اللہ سے ڈرو اس کی وحدانیت کو مانو اس کی عبادت کرو اور کسی اور کی عبادت نہ کرو یہی احکام تم سے پہلے کے اہل کتاب کو بھی دئے گئے تھے اور اگر تم کفر کرو [ تو اللہ کا کیا بگاڑو گے ؟ ] وہ تو زمین آسمان کا تنہا مالک ہے ۔ جیسے کہ موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا تھا«وَقَالَ مُوسَیٰ إِن تَکْفُرُوا أَنتُمْ وَمَن فِی الْأَرْضِ جَمِیعًا فَإِنَّ اللہَ لَغَنِیٌّ حَمِیدٌ» ۱؎ (14-إبراہیم:8) کہ اگر تم اور تمام روئے زمین کے انسان کفر کرنے لگو تو بھی اللہ تعالیٰ بےپرواہ اور لائق ستائش ہے اور جگہ فرمایا «فَکَفَرُوْا وَتَوَلَّوْا وَّاسْتَغْنَی اللّٰہُ ۭ وَاللّٰہُ غَنِیٌّ حَمِیْدٌ» ۱؎ (64-التغابن:6) ’ انہوں نے کفر کیا اور منہ موڑ لیا اللہ نے ان سے بے نیازی کی اور اللہ بہت ہی بے نیاز اور تعریف کیا گیا ہے ۔‘ اپنے تمام بندوں سے غنی اور اپنے تمام کاموں میں حمد کیا گیا ہے ۔ آسمان و زمین کی ہرچیز کا وہ مالک ہے اور ہر شخص کے تمام افعال پر وہ گواہ ہے اور ہرچیز کا وہ عالم اور شاہد ہے ۔ وہ قادر ہے کہ اگر تم اس کی نافرمانیاں کرو تو وہ تمہیں برباد کر دے اور غیروں کو آباد کر دے ۔ جیسا کہ دوسری آیت میں ہے « وَاِنْ تَتَوَلَّوْا یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَکُمْ ۙ ثُمَّ لَا یَکُوْنُوْٓا اَمْثَالَکُمْ » ۱؎ (47-محمد:38) ’ اگر تم منہ موڑو گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں بدل کر تمہارے سوا اور قوم کو لائے گا جو تم جیسے نہ ہوں گے ۔ ‘ بعض سلف سے منقول ہے کہ اس آیت پر غور کرو اور سوچو کہ گنہگار بندے اللہ اکبر و اعلیٰ کے نزدیک کس قدر ذلیل اور فرومایہ ہیں ؟ اور آیت میں یہ بھی فرمایا ہے کہ«أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللہَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ ۚ إِن یَشَأْ یُذْہِبْکُمْ وَیَأْتِ بِخَلْقٍ جَدِیدٍ ۔ وَمَا ذٰلِکَ عَلَی اللہِ بِعَزِیزٍ » ۱؎ (14-ابراھیم:19،20 ) ’ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ خدا نے آسمانوں اور زمین کو تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ اگر وہ چاہے تو تم کو نابود کر دے اور [ تمہاری جگہ ] نئی مخلوق پیدا کر دے اللہ مقتدر پر یہ کام کچھ مشکل نہیں ۔‘ پھر فرماتا ہے اے وہ شخص جس کا پورا قصد اور جس کی تمام تر کوشش صرف دنیا کے لیے ہے تو جان لے کہ دونوں جہاں دنیا اور آخرت کی بھلائیاں اللہ کے قبضے میں ہیں ، تو جب اس سے دونوں ہی طلب کرے گا تو وہ تجھے دے گا اور تجھے بےپرواہ کر دے گا اور آسودہ بنا دے گا اور جگہ فرمایا« فَمِنَ النَّاسِ مَن یَقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِی الدٰنْیَا وَمَا لَہُ فِی الْآخِرَۃِ مِنْ خَلَاقٍ » ۱؎ (2-البقرۃ:200) { بعض لوگ وہ ہیں جو کہتے ہیں اللہ تعالیٰ ہمیں دنیا دے ان کا کوئی حصہ آخرت میں نہیں } ، اور ایسے بھی ہیں جو دعائیں کرتے ہیں کہ«وَمِنْہُم مَّن یَقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِی الدٰنْیَا حَسَنَۃً وَفِی الْآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ» ۱؎ (2-البقرۃ:201) { اے ہمارے رب ہمیں دنیا کی بھلائیاں دے اور آخرت میں بھی بھلائیاں عطا فرما اور جہنم کے عذاب سے ہمیں نجات عطا فرما ۔ } یہ ہیں جنہیں ان کے اعمال کا پورا حصہ ملے گا اور جگہ ہے جو شخص آخرت کی کھیتی کا ارادہ رکھے ہم اس کی کھیتی میں زیادتی کریں گے اور آیت میں ہے «مَنْ کَانَ یُرِیْدُ الْعَاجِلَۃَ عَجَّــلْنَا لَہٗ فِیْہَا مَا نَشَاۗءُ لِمَنْ نٰرِیْدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَہٗ جَہَنَّمَ ۚ یَصْلٰیہَا مَذْمُوْمًا مَّدْحُوْرًا» ۱؎ (17-الإسراء:18) ’ جو شخص دنیا طلب ہو تو ہم جسے چاہیں جتنا چاہیں دنیا میں دے دیں ۔ ‘ امام ابن جریر رحمہ اللہ نے اس آیت کے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ جن منافقوں نے دنیا کی جستجو میں ایمان قبول کیا تھا انہیں دنیا چاہے مل گئی یعنی مسلمان سے مال غنیمت میں حصہ مل گیا ، لیکن آخرت میں ان کے لیے الہ العلمین کے پاس جو تیاری ہے وہ انہیں وہاں ملے گی یعنی جہنم کی آگ اور وہاں کے گوناگوں عذاب ۔ تو امام صاحب مذکور رحمہ اللہ کے نزدیک یہ آیت مثل« مَنْ کَانَ یُرِیْدُ الْحَیٰوۃَ الدٰنْیَا وَزِیْنَتَہَا نُوَفِّ اِلَیْہِمْ اَعْمَالَہُمْ فِیْہَا وَہُمْ فِیْہَا لَا یُبْخَسُوْنَ» ۱؎ (11-ہود:15) کے ہے ۔ کوئی شک نہیں کہ اس آیت کے معنی تو بظاہر یہی ہیں لیکن پہلی آیت کو بھی اسی معنی میں لینا ذرا غور طلب امر ہے کیونکہ اس آیت کے الفاظ تو صاف بتا رہے ہیں کہ دنیا اور آخرت کی بھلائی دینا الہ العالمین کے ہاتھ ہے تو ہر شخص کو چاہیئے کہ وہ اپنی ہمت ایک ہی چیز کی جستجو میں خرچ نہ کر دے بلکہ دونوں چیزوں کے حاصل کرنے کی کوشش کرے جو تمہیں دنیا دیتا ہے وہی آخرت کا مالک بھی ہے اور یہ بڑی پست ہمتی ہو گی کہ تم اپنی آنکھیں بند کر لو اور بہت دینے والے سے تھوڑا مانگو ، نہیں نہیں بلکہ تم دنیا اور آخرت کے بڑے بڑے کاموں اور بہترین مقاصد کو حاصل کرنے کی کوشش کرو ، اپنا نصب العین صرف دنیا کو نہ بنا لو ، عالی ہمتی اور بلند پردازی سے وسعت نظری کو کام میں لا کر عیش جاودانی کی کوشش وسعی کرو ۔ یاد رکھو دونوں جہان کا مالک وہی ہے ہر ہر نفع اسی کے ہاتھ میں ہے کوئی نہیں جسے اس کے ساتھ شراکت ہو یا اس کے کاموں میں دخل ہو سعادت و شقاوت اس نے تقسیم کی ہے خزانوں کی کنجیاں اس نے اپنی مٹھی میں رکھ لی ہیں ، وہ ہر ایک مستحق کو جانتا ہے اور جس کا وہ مستحق ہوتا ہے اسے وہی پہچانتا ہے ، بھلا تم غور تو کرو کہ تمہیں دیکھنے سننے کی طاقت دینے والے کا اپنا دیکھنا سننا کیسا ہو گا ۔