سورة النبأ - آیت 21

إِنَّ جَهَنَّمَ كَانَتْ مِرْصَادًا

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

درحقیقت جہنم ایک گھات ہے

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

1 پھر فرماتا ہے ’ سرکش ، نافرمان ، مخالفین رسول کی تاک میں جہنم لگی ہوئی ہے ان کے لوٹنے اور رہنے سہنے کی جگہ ہے ‘ ۔ اس کے معنی حسن اور قتادہ رحمہ اللہ علیہم نے یہ بھی کیے ہیں کہ ” کوئی شخص جنت میں بھی نہیں جا سکتا ، جب تک جہنم پر سے نہ گزرے ، اگر اعمال ٹھیک ہیں تو نجات پا لی اور اگر اعمال بد ہیں تو روک لیا گیا اور جہنم میں جھونک دیا گیا “ ۔ سفیان ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” اس پر تین تین پل ہیں “ ۔ پھر فرمایا ’ وہ اس میں مدتوں اور قرنوں پڑے رہیں گے ‘ ۔ «أَحْقَابًا» جمع ہے «حُقْبٍ» کی ایک لمبے زمانے کو «حُقْبٍ» کہتے ہیں ۔ بعض کہتے ہیں «حُقْبٍ» اسی سال کا ہوتا ہے سال بارہ ماہ کا ۔ مہینہ تیس دن اور ہر دن ایک ہزار سال کا ، بہت سے صحابہ رضی اللہ عنہم اور تابعین سے یہ مروی ہے ۔ بعض کہتے ہیں ستر سال کا «حُقْبٍ» ہوتا ہے ، کوئی کہتا ہے چالیس سال کا ہے ، جس میں ہر دن ایک ہزار سال کا ۔ بشیر بن کعب رحمہ اللہ تو کہتے ہیں ایک ایک دن اتنا بڑا اور ایسے تین سو ساٹھ سال کا ایک «حُقْبٍ» ۔ ایک مرفوع حدیث میں ہے { «حُقْبٍ» مہینہ کا ، مہینہ تیس دن کا ، سال بارہ مہینوں کا ، سال کے دن تین سو ساٹھ ہر دن تمہاری گنتی کے اعتبار سے ایک ہزار سال کا } ۔ ۱؎ (طبرانی کبیر:7957:ضعیف) لیکن یہ حدیث سخت منکر ہے اس کے راوی قاسم جو جابر بن زبیر کے لڑکے ہیں ، یہ دونوں متروک ہیں ۔ ایک اور روایت میں ہے کہ ابوعلاء سلیمان بن مسلم نے سلیمان تیمی رحمہ اللہ سے پوچھا کہ کیا جہنم میں سے کوئی نکلے گا بھی ؟ تو جواب دیا کہ میں نے نافع سے انہوں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے سنا کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اللہ کی قسم جہنم میں سے کوئی بھی بغیر مدت دراز رہے نہ نکلے گا “ } پھر کہا «حُقْبٍہ» اسی سے اوپر کچھ سال کا ہوتا ہے اور ہر سال تین سو ساٹھ دن کا جو تم گنتے ہو ۔ ۱؎ (مسند بزار:5303:موضوع و باطل) سدی رحمہ اللہ کہتے ہیں ” سات سو «حقب» رہیں گے ہر «حقب» ستر سال کا ہر سال تین سو ساٹھ دن کا اور ہر دن دنیا کے ایک ہزار سال کے برابر کا “ ۔ مقاتل بن حیان رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” یہ آیت «فَذُوقُوا فَلَنْ نَزِیدَکُمْ إِلَّا عَذَابًا» ۱؎ (78-النبأ:30) کی آیت سے منسوخ ہو چکی ہے “ ۔ خالد بن معدان رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت اور آیت «‏‏‏‏إِلَّا مَا شَاءَ رَبٰکَ» ۱؎ (11-ھود:107) یعنی ’ جہنمی جب تک اللہ چاہے جہنم میں رہیں گے ‘ ، یہ دونوں آیتیں توحید والوں کے بارے میں ہیں ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ بھی ممکن ہے کہ «احقاب» تک رہنا متعلق ہو آیت «إِلَّا حَمِیمًا وَغَسَّاقًا» ۱؎ (78-النبإ:25) کے ساتھ یعنی ’ وہ ایک ہی عذاب گرم پانی اور بہتی پیپ کا مدتوں رہے گا ‘ ، پھر دوسری قسم کا عذاب شروع ہو گا لیکن صحیح یہی ہے کہ اس کا خاتمہ ہی نہیں ۔ حسن سے جب یہ سوال ہوا تو کہا کہ ” «أَحْقَابً» سے مراد ہمیشہ جہنم میں رہنا ہے لیکن «حقب» کہتے ہیں ستر سال کو جس کا ہر دن دنیا کے ایک ہزار برس کے برابر ہوتا ہے “ ۔ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ” «أَحْقَابً» کبھی ختم نہیں ہوتے ایک «حقب» ختم ہوا دوسرا شروع ہو گیا ان «أَحْقَابً» کی صحیح مدت کا اندازہ صرف اللہ تعالیٰ ہی کو ہے ، ہاں یہ ہم نے سنا ہے کہ ایک «حقب» اسی سال کا ، ایک سال تین سو ساٹھ دن کا ہر دن دنیا کے ایک ہزار سال کا ، ان دوزخیوں کو نہ تو کلیجے کی ٹھنڈک ہو گی نہ کوئی اچھا پانی ملے گا ، ہاں ٹھنڈک کے بدلے گرم کھولتا ہوا پانی ملے گا اور کھانے پینے کی چیز بہتی ہوئی پیپ ملے گی ۔ «حَمِیمً» اس سخت گرم کو کہتے ہیں جس کے بعد حرارت کا کوئی درجہ نہ ہو ، اور «غَسَّاقً» کہتے ہیں جہنمی لوگوں کے لہو ، پیپ ، پسینہ ، آنسو اور زخموں سے بہے ہوئے خون ، پیپ وغیرہ کو ، اس گرم چیز کے مقابلہ میں یہ اس قدر سرد ہو گی جو بجائے خود عذاب ہے اور بے حد بدبودار ہے ۔ سورۃ ص میں «غَسَّاقً» کی پوری تفسیر بیان ہو چکی ہے اب یہاں دوبارہ اس کے بیان کی چنداں ضرورت نہیں ، اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے ہمیں اپنے ہر عذاب سے بچائے ۔ بعض نے کہا ہے «بَرْدً» سے مراد نیند ہے ، عرب شاعروں کے شعروں میں بھی «بَرْدً» نیند کے معنی میں پایا جاتا ہے ۔ پھر فرمایا ’ یہ ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ ہے ‘ ، ان کی بد اعمالیاں بھی تو دیکھو کہ ان کا عقیدہ تھا کہ حساب کا کوئی دن آنے ہی کا نہیں ، ہم نے جو جو دلیلیں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمائی تھیں یہ ان سب کو جھٹلاتے تھے ۔ «کِذَّابًا» مصدر ہے اس وزن پر اور مصدر بھی آتے ہیں ، پھر فرمایا کہ ’ ہم نے اپنے بندوں کے تمام اعمال و افعال کو گن رکھا ہے اور شمار کر رکھا ہے وہ سب ہمارے پاس لکھے ہوئے ہیں اور سب کا بدلہ بھی ہمارے پاس تیار ہے ‘ ۔ ان اہل جہنم سے کہا جائے گا کہ ’ اب ان عذابوں کا مزہ چکھو ، ایسے ہی اور اس سے بھی بدترین عذاب تمہیں بکثرت ہوتے رہیں گے ‘ ۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ” دوزخیوں کے لیے اس سے زیادہ سخت اور مایوس کن اور کوئی آیت نہیں ، ان کے عذاب ہر وقت بڑھتے ہی رہیں گے “ ۔ سیدنا ابوبردہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے سوال ہوا کہ دوزخیوں کے لیے اس سے زیادہ سخت آیت کونسی ہے ؟ تو فرمایا نبی علیہ السلام نے اس آیت «فَذُوقُوا فَلَن نَّزِیدَکُمْ إِلَّا عَذَابًا» ۱؎ (78-النبأ:30) کو پڑھ کر فرمایا : ” ان لوگوں کو اللہ کی نافرمانیوں نے تباہ کر دیا “ ، لیکن اس حدیث کے راوی جسر بن فرقد بالکل ضعیف ہیں ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:11/30:ضعیف)