وَاصْبِرْ عَلَىٰ مَا يَقُولُونَ وَاهْجُرْهُمْ هَجْرًا جَمِيلًا
اور جو باتیں لوگ بنا رہے ہیں ان پر صبر کرو اور انہیں اچھے انداز میں چھوڑ دو
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حوصلہ افزائی اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبی کو کفار کی طعن آمیز باتوں پر صبر کرنے کی ہدایت کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ ’ ان کے حال پر بغیر ڈانٹ ڈپٹ کے ہی چھوڑ دے ، میں خود ان سے نمٹ لوں گا ۔ میرے غضب اور غصے کے وقت دیکھ لوں گا کہ کیسے یہ لوگ نجات پاتے ہیں ۔ ہاں ان کے مالدار خوش حال لوگوں کو جو بے فکر ہیں اور تجھے ستانے کے لیے باتیں بنا رہے ہیں جن پر دوہرے حقوق ہیں مال کے اور جان کے اور یہ ان میں سے ایک بھی ادا نہیں کرتے تو ان سے بے تعلق ہو جا پھر دیکھ کہ میں ان کے ساتھ کیا کرتا ہوں۔ ‘ «نُمَتِّعُہُمْ قَلِیلًا ثُمَّ نَضْطَرٰہُمْ إِلَیٰ عَذَابٍ غَلِیظٍ » ۱؎ (31-لقمان:24) ’ تھوڑی دیر دنیا میں تو چاہے یہ فائدہ اٹھا لیں گے مگر انجام کار عذابوں میں پھنسیں گے ‘ ، اور عذاب بھی کون سے ؟ سخت قید و بند کے ، بدترین بھڑکتی ہوئی نہ بجھنے والی اور نہ کم ہونے والی آگ کے اور ایسا کھانا جو حلق میں جا کر اٹک جائے نہ نگل سکیں نہ اگل سکیں اور بھی طرح طرح کے المناک عذاب ہوں گے ، پھر وہ وقت بھی ہو گا جب زمینوں میں اور پہاڑوں پر زلزلہ طاری ہو گا سخت اور بڑی چٹانوں والے پہاڑ آپس میں ٹکرا ٹکرا کر چور چور ہو گئے ہوں گے جیسے بھربھری ریت کے بکھرے ہوئے ذرے ہوں جنہیں ہوا ادھر سے ادھر لے جائے گی اور نام و نشان تک مٹا دے گی اور زمین ایک چٹیل صاف میدان کی طرح رہ جائے گی جس میں کہیں اونچ نیچ نظر نہ آئے گی ۔ اہل فرعون کی طرح نہ بنو پھر فرماتا ہے اے لوگو اور خصوصاً اے کافرو ہم نے تم پر گواہی دینے والا اپنا سچا رسول تم میں بھیج دیا ہے جیسے کہ فرعون کے پاس بھی ہم نے اپنے احکام کے پہنچا دینے کے لیے اپنے ایک رسول کو بھیجا تھا ، اس نے جب اس رسول کی نہ مانی تو تم جانتے ہو کہ ہم نے اسے بری طرح برباد کیا اور سختی سے پکڑ لیا ۔ ‘ اسی طرح یاد رکھو اگر اس نبی کی تم نے بھی نہ مانی تو تمہاری خیر نہیں اللہ کے عذاب تم پر بھی اتر آئیں گے اور نیست و نابود کر دیئے جاؤ گے کیونکہ یہ رسول رسولوں کے سردار ہیں ان کے جھٹلانے کا وبال بھی اور وبالوں سے بڑا ہے ۔ اس کے بعد کی آیت کے دو معنی ہیں ایک تو یہ کہ ’ اگر تم نے کفر کیا تو بتاؤ تو سہی کہ اس دن کے عذابوں سے کیسے نجات حاصل کرو گے ؟ جس دن کی ہیبت خوف اور ڈر بچوں کو بوڑھا کر دے گا ۔ ‘ اور دوسرے معنی یہ کہ ’ اگر تم نے اتنے بڑے ہولناک دن کا بھی کفر کیا اور اس کے بھی منکر رہے تو تمہیں تقویٰ اور اللہ کا ڈر کیسے حاصل ہو گا ؟ ‘ گو یہ دونوں معنی نہایت عمدہ ہیں لیکن اول اولیٰ ہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» جنتیوں اور جہنمیوں کی نسبت طبرانی میں ہے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی اور فرمایا : { یہ قیامت کا دن ہے جس دن اللہ تعالیٰ آدم علیہ السلام سے فرمائے گا اٹھو اور اپنی اولاد میں سے دوزخیوں کو الگ الگ کرو ، وہ پوچھیں گے اے اللہ ! کتنی تعداد میں سے کتنے ؟ حکم ہو گا ہر ہزار میں سے نو سو ننانوے۔ یہ سنتے ہی مسلمانوں کے تو ہوش اڑ گئے اور گھبرا گئے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کے چہرے دیکھ کر سمجھ گئے اور بطور تشفی کے فرمایا : ” سنو بنو آدم بہت سے ہیں یاجوج ماجوج بھی اولاد آدم میں سے ہیں جن میں سے ہر ایک نسلی تسلسل میں خاص اپنی صلبی اولاد ایک ایک ہزار چھوڑ کر جاتا ہے پس ان میں اور ان حبشیوں میں مل کر دوزخیوں کی یہ تعداد ہو جائے گی اور جنت تمہارے لیے اور تم جنت کے لیے ہو جاؤ گے ۔ “ ۱؎ (طبرانی کبیر:12034:ضعیف) یہ حدیث غریب ہے اور سورۃ الحج کی تفسیر کے شروع میں اس جیسی احادیث کا تذکرہ گزر چکا ہے ۔ اس دن کی ہیبت اور دہشت کے مارے آسمان بھی پھٹ جائے گا ، بعض نے ضمیر کا مرجع اللہ کی طرف کیا ہے لیکن یہ قوی نہیں اس لیے کہ یہاں ذکر ہی نہیں ، اس دن کا وعدہ یقیناً سچ ہے اور ہو کر ہی رہے گا اس دن کے آنے میں کوئی شک نہیں ۔