سورة النسآء - آیت 47

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ آمِنُوا بِمَا نَزَّلْنَا مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَكُم مِّن قَبْلِ أَن نَّطْمِسَ وُجُوهًا فَنَرُدَّهَا عَلَىٰ أَدْبَارِهَا أَوْ نَلْعَنَهُمْ كَمَا لَعَنَّا أَصْحَابَ السَّبْتِ ۚ وَكَانَ أَمْرُ اللَّهِ مَفْعُولًا

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اے اہل کتاب! ایمان لاؤ اس پر جو کچھ ہم نے نازل فرمایا یہ اس کی بھی تصدیق کرنے والا ہے جو تمہارے پاس ہے۔ اس پر ایمان لے آؤ اس سے پہلے کہ ہم چہرے بگاڑ دیں اور انہیں الٹ کر پیٹھ کی طرف کردیں یا ان پر لعنت بھیجیں۔ جیسے ہم نے ہفتے کے دن والوں پر لعنت کی۔ اور ہے اللہ تعالیٰ کا کام کیا گیا

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

قرآن حکیم کا اعجاز تاثیر اللہ عزوجل یہود و نصاریٰ کو حکم دیتا ہے کہ میں نے اپنی زبردست کتاب اپنے بہترین نبی کے ساتھ نازل فرمائی ہے جس میں خود تمہاری اپنی کتاب کی تصدیق بھی ہے اس پر ایمان لاؤ اس سے پہلے کہ ہم تمہاری صورتیں مسخ کر دیں یعنی منہ بگاڑ کر دیں آنکھیں بجائے ادھر کے ادھر ہو جائیں ، یا یہ مطلب کہ تمہارے چہرے مٹادیں آنکھیں کان ناک سب مٹ جائیں پھر یہ مسخ چہرہ بھی الٹا ہو جائے ۔ یہ عذاب ان کے کرتوت کا پورا بدلہ ہے یہ بھی حق سے ہٹ کر باطل کی طرف ہدایت سے پھر کر ضلالت کی جانب بڑھے جا رہے ہیں تو اللہ بھی انہیں دھمکاتا ہے کہ میں بھی اسی طرح تمہارا منہ الٹ دوں گا تاکہ تمہیں پچھلے پیروں چلنا پڑے تمہاری آنکھیں گدی کی طرف کر دوں اور اسی جیسی تفسیر بعض نے«إِنَّا جَعَلْنَا فِی أَعْنَاقِہِمْ أَغْلَالًا فَہِیَ إِلَی الْأَذْقَانِ فَہُم مٰقْمَحُونَ وَجَعَلْنَا مِن بَیْنِ أَیْدِیہِمْ سَدًّا» ۱؎ (36-یس:8-9) کی آیت میں بھی کی ہے غرض یہ ان کی گمراہی اور ہدایت سے دور پڑ جانے کی بری مثال بیان ہوئی ہے ، مجاہد رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ مطلب یہ ہے کہ ہم تمہیں سچ مچ حق کے راستے سے ہٹا دیں اور گمراہی کی طرف متوجہ کر دیں ، ہم تمہیں کافر بنا دیں اور تمہارے چہرے بندروں جیسے کر دیں ، ابن زید رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ لوٹا دینا یہ تھا کہ ارض حجاز سے بلاد شام میں پہنچا دیا ۔ یہ بھی مذکور ہے کہ اسی آیت کو سن کر سیدنا کعب احبار رضی اللہ عنہ مشرف بااسلام ہوئے تھے ۔ ابن جریر میں ہے کہ ابراہیم رحمہ اللہ کے سامنے سیدنا کعب رضی اللہ عنہ کے اسلام کا تذکرہ ہوا تو آپ نے فرمایا سیدنا کعب رضی اللہ عنہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں مسلمان ہوئے یہ بیت المقدس جاتے ہوئے مدینہ میں آئے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ان کے پاس گئے اور فرمایا اے سیدنا کعب رضی اللہ عنہ مسلمان ہو جاؤ انہوں نے جواب دیا تم تو قرآن میں پڑھ چکے ہو کہ جنہیں توراۃ کا حامل بنایا گیا انہوں نے اسے کما حقہ قبول نہ کیا ۔ ان کی مثال اس گدھے کی سی ہے جو بوجھ لادے ہوئے ہو اور یہ بھی تم جانتے ہو کہ میں بھی ان لوگوں میں سے ہوں جو توراۃ اٹھوائے گئے اس پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اسے چھوڑ دیا ۔ یہ یہاں سے چل کر حمص پہنچے وہاں سنا کہ ایک شخص جو ان کے گھرانے میں سے تھا اس آیت کی تلاوت کر رہا ہے جب اس نے آیت ختم کی انہیں ڈر لگنے لگا کہ کہیں سچ مچ اس آیت کی وعید مجھ پر صادق نہ آ جائے اور میرا منہ مسخ کر پلٹ نہ جائے یہ جھٹ سے کہنے لگے «یَارَبِّ اَسْلَمْتُ» میرے اللہ میں ایمان لایا ۔ پھر حمص سے ہی واپس اپنے وطن یمن میں آئے اور یہاں سے اپنے تمام گھر والوں کو لے کر سارے کنبے سمیت مسلمان ہو گئے ۔۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:446/8:ضعیف) ابن ابی حاتم میں سیدنا کعب رضی اللہ عنہ کے اسلام کا واقعہ اس طرح مروی ہے کہ ان کے استاد ابو مسلم جلیلی ان کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے میں دیر لگانے کی وجہ سے ہر وقت انہیں ملامت کرتے رہتے تھے پھر انہیں بھیجا کہ دیکھیں کہ آپ وہی پیغمبر ہیں جن کی خوشخبری اور اوصاف توراۃ میں ہیں ؟ یہ آئے تو فرماتے ہیں جب میں مدینہ شریف پہنچا تو نا گہاں میں سنا کہ ایک شخص قرآن کریم کی اس آیت کی تلاوت کر رہا تھا کہ اے اہل کتاب ہماری نازل کردہ کتاب تمہارے پاس موجود کتاب کی تصدیق کرتی ہے بہتر ہے کہ اس پر اس سے پہلے ایمان لاؤ کہ ہم تمہارے منہ بگاڑ دیں اور انہیں الٹا کر دیں ۔ میں چونک اٹھا اور جلدی جلدی غسل کرنے بیٹھ گیا اور اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرتا جاتا تھا کہ کہیں مجھے ایمان لانے میں دیر نہ لگ جائے اور میرا چہرہ الٹا نہ ہو جائے ۔ پھر میں بہت جلد آ کر مسلمان ہو گیا ، ۱؎ (میزان الاعتدال:6465:ضعیف) اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں یا ہم ان پر لعنت کریں جیسے کہ ہفتہ والوں پر ہم نے لعنت نازل کی یعنی جن لوگوں نے ہفتہ والے دن حیلے کرکے لیے شکار کھیلا حالانکہ انہیں اس کام سے منع کیا گیا تھا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ بندر اور سور بنا دئیے گئے ان کا مفصل واقعہ سورۃ الاعراف میں آئے گا انشا اللہ تعالیٰ ارشاد ہوتا ہے اللہ کے کام پورے ہو کر ہی رہتے ہیں وہ جب کوئی حکم کر دے تو کوئی نہیں جو اس کی مخالفت یا ممانعت کر سکے ۔