وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ ۚ وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى الْخَاشِعِينَ
صبر اور نماز کے ساتھ مدد طلب کرو۔ یہ بات عاجزی کرنے والوں کے سوا دوسروں کے لیے بہت مشکل ہے
صبر کا مفہوم اس آیت میں حکم فرمایا جاتا ہے کہ تم دنیا اور آخرت کے کاموں پر نماز اور صبر کے ساتھ مدد طلب کیا کرو ، فرائض بجا لاؤ اور نماز کو ادا کرتے رہو روزہ رکھنا بھی صبر کرنا ہے اور اسی لیے رمضان کو صبر کا مہینہ کہا گیا ہے ۔ (مسند احمد:263/2-384:) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں روزہ آدھا صبر ہے - (سنن ترمذی:3519 ، قال الشیخ الألبانی:ضعیف) صبر سے مراد گناہوں سے رک جانا بھی ہے ۔ اس آیت میں اگر صبر سے یہ مراد لی جائے تو برائیوں سے رکنا اور نیکیاں کرنا دونوں کا بیان ہو گیا ، نیکیوں میں سب سے اعلیٰ چیز نماز ہے ۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں صبر کی دو قسمیں ہیں مصیبت کے وقت صبر اور گناہوں کے ارتکاب سے صبر اور یہ صبر پہلے سے زیادہ اچھا ہے ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:155/1:منقطع) حضرت سعید بن جبیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں انسان کا ہر چیز کا اللہ کی طرف سے ہونے کا اقرار کرنا ۔ ثواب کا طلب کرنا اللہ کے پاس مصیبتوں کے اجر کا ذخیرہ سمجھنا یہ صبر ہے اللہ تعالیٰ کی مرضی کے کام پر صبر کرو اور اسے بھی اللہ تعالیٰ کی اطاعت سمجھو نیکیوں کے کاموں پر نماز سے بڑی مدد ملتی ہے خود قرآن میں ہے «اتْلُ مَا أُوحِیَ إِلَیْکَ مِنَ الْکِتَابِ وَأَقِمِ الصَّلَاۃَ إِنَّ الصَّلَاۃَ تَنْہَیٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنکَرِ وَلَذِکْرُ اللہِ أَکْبَرُ وَ اللہُ یَعْلَمُ مَا تَصْنَعُونَ» ( 29 ۔ العنکبوت : 45 ) ۔ نماز کو قائم رکھ یہ تمام برائیوں اور بدیوں سے روکنے والی ہے اور یقیناً اللہ کا ذکر بہت بڑی چیز ہے ۔ سیدنا حذیفہ فرماتے ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی کام مشکل اور غم میں ڈال دیتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھا کرتے فوراً نماز میں لگ جاتے ۔ (سنن ابوداود:1319 ، قال الشیخ الألبانی:حسن) چنانچہ جنگ خندق کے موقع پر رات کے وقت جب سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ خدمت نبوی میں حاضر ہوتے ہیں ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز میں پاتے ہیں ۔ (تعظیم قدر الصلاۃ) سیدنا علی رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ بدر کی لڑائی کی رات میں نے دیکھا کہ ہم سب سو گئے تھے مگر اللہ کے رسول «اللھم صلی وسلم علیہ» ساری رات نماز میں مشغول رہے صبح تک نماز میں اور دعا میں لگے رہے ۔ (تعظیم قدر الصلاۃ:213:حسن) ابن جریر رحمہ اللہ میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ بھوک کے مارے پیٹ کے درد سے بیتاب ہو رہے ہیں آپ نے ان سے ( فارسی زبان میں ) دریافت فرمایا کہ درد شکم داری ؟ کیا تمہارے پیٹ میں درد ہے ؟ انہوں نے کہا ہاں آپ نے فرمایا اٹھو نماز شروع کر دو اس میں شفاء ہے ۔ (سنن ابن ماجہ:3458 ، قال الشیخ الألبانی:ضعیف) سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو سفر میں اپنے بھائی قثم کے انتقال کی خبر ملتی ہے تو آپ رضی اللہ عنہما «إِنَّا لِلہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ» ( البقرہ : 156 ) پڑھ کر راستہ سے ایک طرف ہٹ کر اونٹ بٹھا کر ، نماز شروع کر دیتے ہیں اور بہت لمبی نماز ادا کرتے ہیں پھر اپنی سواری کی طرف جاتے ہیں اور اس آیت کو پڑھتے ہیں غرض ان دونوں چیزوں صبرو صلوٰت سے اللہ کی رحمت میسر آتی ہے ۔ اِنَّھاَ کی ضمیر کا مرجع بعض لوگوں نے تو صلوٰۃ یعنی نماز کو کہا ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ کہ مدلول کلام یعنی وصیت اس کا مرجع ہے جیسے قارون کے قصہ میں «وَلَا یُلَقَّاہَا(28-القصص:80)» کی ضمیر اور برائی کے بدلے بھلائی کرنے کے حکم میں «وما یلقھا» کی ضمیر ۔ مطلب یہ ہے کہ صبرو صلوٰۃ ہر شخص کے بس کی چیز نہیں یہ حصہ اللہ کا خوف رکھنے والی جماعت کا ہے ۔ یعنی قرآن کے ماننے والے سچے مومن کانپنے والے متواضع اطاعت کی طرف جھکنے والے وعدے وعید کو سچا ماننے والے ہیں اس وصف سے موصوف ہوتے ہیں جیسے حدیث میں ایک سائل کے سوال پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا یہ بری چیز ہے لیکن جس پر اللہ تعالیٰ کی مہربانی ہو اس پر آسان ہے ، (سنن ترمذی:2616 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) ابن جریر رحمہ اللہ نے اس آیت کے معنی کرتے ہوئے اسے بھی یہودیوں سے ہی خطاب قرار دیا ہے لیکن ظاہر بات یہ ہے کہ گو یہ بیان انہی کے بارے میں لیکن حکم کے اعتبار سے عام ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» آگے چل کر خاشعین کی صفت ہے اس میں ظن معنی میں یقین کے ہے گو ظن شک کے معنی میں بھی آتا ہے جیسے کہ سدفہ اندھیرے کے معنی میں بھی آتا ہے اور روشنی کے معنی میں بھی اور صارخ کا لفظ بھی فریاد رس اور فریاد کن دونوں کے لیے بولا جاتا ہے اور اسی طرح کے بہت سے نام ہیں جو ایسی دو مختلف چیزوں پر بولے جاتے ہیں ۔ «ظن» یقین کے معنی میں عرب شعراء کے شعروں میں بھی آیا ہے خود قرآن کریم میں «وَرَأَی الْمُجْرِمُونَ النَّارَ فَظَنٰوا أَنَّہُم مٰوَاقِعُوہَا وَلَمْ یَجِدُوا عَنْہَا مَصْرِفًا» ( 18 ۔ الکہف : 53 ) یعنی گنہگار جہنم کو دیکھ کر یقین کر لیں گے کہ اب ہم اس میں جھونک دئیے جائیں گے یہاں بھی «ظن» یقین کے معنی میں ہے بلکہ مجاہد فرماتے ہیں قرآن میں ایسی جگہ «ظن» کا لفظ یقین اور علم کے معنی میں ہے ابوالعالیہ بھی یہاں «ظن» کے معنی یقین کرتے ہیں ۔ حضرت مجاہدرحمہ اللہ ، سدی رحمہ اللہ ، ربیع رحمہ اللہ بن انس اور قتادہ رحمہ اللہ کا بھی یہی قول ہے ۔ ابن جریج بھی یہی فرماتے ہیں ۔ قرآن میں دوسری جگہ ہے «اِنِّیْ ظَنَنْتُ اَنِّیْ مُلٰقٍ حِسَابِیَہْ» ( 69 ۔ الحاقہ : 20 ) یعنی مجھے یقین تھا کہ مجھے حساب سے دو چار ہونا ہے ۔ ایک صحیح حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن ایک گنہگار بندے سے اللہ تعالیٰ فرمائے گا کیا میں نے تجھے بیوی بچے نہیں دئیے تھے ؟ کیا تجھ پر طرح طرح کے اکرام نہیں کئے تھے ؟ کیا تیرے لیے گھوڑے اور اونٹ مسخر نہیں کئے تھے ؟ کیا تجھے راحت و آرام کھانا پینا میں نے نہیں دیا تھا ؟ یہ کہے گا ہاں پروردگار یہ سب کچھ دیا تھا ۔ پھر کیا تیرا علم و یقین اس بات پر نہ تھا کہ تو مجھ سے ملنے والا ہے ؟ وہ کہے گا ہاں اللہ تعالیٰ اسے نہیں مانتا تھا ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا بس تو جس طرح مجھے بھول گیا تھا آج میں بھی تجھے بھلا دوں گا ۔ (صحیح مسلم:2968) اس حدیث میں بھی لفظ ظن کا ہے اور معنی میں یقین کے ہیں اس کی مزید تحقیق و تفصیل ان شاءاللہ تعالیٰ آیت «نَسُوا اللّٰہَ فَاَنْسٰـیہُمْ اَنْفُسَہُمْ» ( 59 ۔ الحشر : 19 ) کی تفسیر میں آگے آئے گی ۔