سورة النجم - آیت 31

وَلِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ لِيَجْزِيَ الَّذِينَ أَسَاءُوا بِمَا عَمِلُوا وَيَجْزِيَ الَّذِينَ أَحْسَنُوا بِالْحُسْنَى

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اور زمین اور آسمانوں کی ہر چیز کا مالک اللہ ہے، تاکہ وہ برائی کرنے والوں کو ان کے برے اعمال کی سزا دے اور جنہوں نے اچھائی کی ان لوگوں کو بہترین جزا دے

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

گناہ اور ضابطہ الہٰی مالک آسمان و زمین ، بے پرواہ ، مطلق شہنشاہ ، حقیقی عادل ، خالق ، حق و حق کار اللہ تعالیٰ ہی ہے ، ہر کسی کو اس کے اعمال کا بدلہ دینے والا ، نیکی پر نیک جزا اور بدی پر بری سزا وہی دے گا ۔ اس کے نزدیک بھلے لوگ وہ ہیں جو اس کی حرام کردہ چیزوں اور کاموں سے بڑے بڑے گناہوں اور بدکاریوں و نالائقیوں سے الگ رہیں ان سے بتقاضائے بشریت اگر کبھی کوئی چھوٹا سا گناہ سرزد ہو بھی جائے تو پروردگار پردہ پوشی کرتا ہے اور معاف فرما دیتا ہے جیسے اور آیت میں ہے «إِن تَجْتَنِبُوا کَبَائِرَ‌ مَا تُنْہَوْنَ عَنْہُ نُکَفِّرْ‌ عَنکُمْ سَیِّئَاتِکُمْ وَنُدْخِلْکُم مٰدْخَلًا کَرِ‌یمًا» ۱؎ (4-النساء:31) ’ اگر تم ان کبیرہ گناہوں سے پاکدامن رہے جن سے تمہیں روک دیا گیا ہے تو ہم تمہاری برائیاں معاف فرما دیں گے ‘ ۔ یہاں بھی فرمایا : مگر چھوٹی چھوٹی لغزشیں اور انسانیت کی کمزوریاں معاف ہیں ۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں «لَـمَـمَ» کی تفسیر میرے خیال میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ اس حدیث سے زیادہ اچھی کوئی نہیں کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ نے ابن آدم پر اس کا زنا کا حصہ لکھ دیا ہے جسے وہ یقیناً پا کر ہی رہے گا ، آنکھوں کا زنا دیکھنا ہے ، زبان کا زنا بولنا ہے ، دل امنگ اور آرزو کرتا ہے ، اب شرمگاہ خواہ اسے سچا کر دکھائے یا جھوٹا ۔ “ } ۱؎ (صحیح بخاری:2643) سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں آنکھوں کا زنا نظر کرنا ہے اور ہونٹوں کا بوسہ لینا ہے اور ہاتھوں کا زنا پکڑنا ہے اور پیروں کا زنا چلنا ہے اور شرمگاہ اسے سچا کرتی ہے یا جھوٹا کر دیتی ہے یعنی اگر شرمگاہ کو نہ روک سکا اور بدکاری کر بیٹھا تو سب اعضاء کا زنا ثابت اور اگر اپنے اس عضو کو روک لیا تو وہ سب «لَـمَـمَ» میں داخل ہے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:516/11) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ «لَـمَـمَ» بوسہ لینا ، چھیڑنا ، دیکھنا ، مس کرنا ہے اور جب شرمگاہیں مل گئیں تو غسل واجب ہو گیا اور زناکاری کا گناہ ثابت ہو گیا ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اس جملہ کی تفسیر یہی مروی ہے یعنی جو پہلے گزر چکا ، مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں گناہ سے آلودگی ہو پھر چھوڑ دے تو «لَـمَـمَ» میں داخل ہے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:528/11) شاعر کہتا ہے «إِنْ تَغْفِرْ اللہُمَّ تَغْفِرْ جَمًّا» *** «أَیّ عَبْدٍ لَک مَا أَلَمَّا» اے اللہ ! جبکہ تو معاف فرماتا ہے تو سب کچھ ہی معاف فرما دے ورنہ یوں آلودہ عصیاں تو ہر انسان ہے ۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں اہل جاہلیت اپنے طواف میں عموماً اس شعر کو پڑھا کرتے تھے ۔ ابن جریر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اس شعر کو پڑھنا بھی مروی ہے ، ترمذی میں بھی یہ مروی ہے اور امام ترمذی اسے حسن صحیح غریب کہتے ہیں ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3284،قال الشیخ الألبانی:صحیح) بزار رحمہ اللہ فرماتے ہیں ہمیں اس کی اور سند معلوم نہیں صرف اسی سند سے مرفوعاً مروی ہے ابن ابی حاتم اور بغوی نے بھی اسے نقل کیا ہے بغوی نے اسے سورۃ تنزیل میں روایت کیا ہے لیکن اس مرفوع کی صحت میں نظر ہے ۔ ایک روایت میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” مراد یہ ہے کہ زنا سے نزدیکی ہونے کے بعد توبہ کرے اور پھر نہ لوٹے ، چوری کے قریب ہو جانے کے بعد چوری نہ کی اور توبہ کر کے لوٹ آیا ، اسی طرح شراب پینے کے قریب ہو کر شراب نہ پی اور توبہ کر کے لوٹ گیا ، یہ سب «المام» ہیں جو ایک مومن کو معاف ہیں “ } ۔ حسن بصری رحمہ اللہ سے بھی یہی مروی ہے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:32569) ایک روایت میں ہے صحابہ رضی اللہ عنہم سے عمومًا اس کا مروی ہونا بیان کیا گیا ہے ۔ سیدنا عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں مراد اس سے شرک کے علاوہ گناہ ہیں ۔ ابن زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں دو حدوں کے درمیان حد زنا اور عذاب آخرت ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ہر وہ چیز جو دو حدوں کے درمیان حد دنیا اور حد آخرت نمازیں اس کا کفارہ بن جاتی ہیں اور وہ ہر واجب کر دینے والی سے کم ہے ، حد دنیا تو وہ ہے جو کسی گناہ پر اللہ نے دنیاوی سزا مقرر کر دی ہے اور اس کی سزا دنیا میں مقرر نہیں کی ۔ تیرے رب کی بخشش بہت وسیع ہے ہر چیز کو گھیر لیا ہے اور تمام گناہوں پر اس کا احاطہٰ ہے جیسے فرمان ہے «قُلْ یَا عِبَادِیَ الَّذِینَ أَسْرَفُوا عَلَی أَنفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَۃِ اللہِ إِنَّ اللہَ یَغْفِرُ الذٰنُوبَ جَمِیعًا إِنَّہُ ہُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ» ۱؎ (39-الزمر:53) ’ اے میرے وہ بندو ! جنہوں نے اپنی جان پر اسراف کیا ہے اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہونا اللہ تعالیٰ تمام گناہوں کو بخش دیتا ہے اور وہ بڑی بخشش والا اور بڑے رحم والا ہے ۔ ‘ پھر فرمایا وہ تمہیں دیکھنے والا اور تمہارے ہر حال کا علم رکھنے والا اور تمہارے ہر کلام کو سننے والا اور تمہارے تمام تر اعمال سے واقف ہے جبکہ اس نے تمہارے باپ آدم کو زمین سے پیدا کیا اور ان کی پیٹھ سے ان کی اولاد نکالی جو چیونٹیوں کی طرح پھیل گئی پھر ان کی تقسیم کر کے دو گروہ بنا دئیے ایک جنت کے لیے اور ایک جہنم کے لیے اور جب تم اپنی ماں کے پیٹ میں بچے تھے اس کی مقرر کردہ فرشتے نے روزی ، عمر ، عمل ، نیکی ، بدی لکھ لی ۔ بہت سے بچے پیٹ سے ہی گر جاتے ہیں ، بہت سے دودھ پینے کی حالت میں فوت ہو جاتے ہیں ، بہت سے دودھ چھٹنے کے بعد بلوغت سے پہلے ہی چل بستے ہیں ، بہت سے عین جوانی میں دار دنیا خالی کر جاتے ہیں ، اب جبکہ ہم تمام منازل کو طے کر چکے اور بڑھاپے میں آ گئے جس کے بعد کوئی منزل موت کے سوا نہیں اب بھی اگر ہم نہ سنبھلیں تو ہم سے بڑھ کر غافل کون ہے ؟ خبردار تم اپنے نفس کو پاک نہ کہو اپنے نیک اعمال کی تعریفیں کرنے نہ بیٹھ جاؤ ، اپنے آپ سراہنے نہ لگو ، جس کے دل میں رب کا ڈر ہے اسے رب ہی خوب جانتا ہے ۔ اور آیت میں ہے «أَلَمْ تَرَ‌ إِلَی الَّذِینَ یُزَکٰونَ أَنفُسَہُم بَلِ اللہُ یُزَکِّی مَن یَشَاءُ وَلَا یُظْلَمُونَ فَتِیلًا» ۱؎ (4-النساء:49) ’ کیا تو نے ان لوگوں کو نہ دیکھا جو اپنے نفس کی پاکیزگی آپ بیان کرتے ہیں وہ نہیں جانتے کہ یہ اللہ کے ہاتھ ہے جسے وہ چاہے برتر اعلیٰ اور پاک صاف کر دے کسی پر کچھ بھی ظلم نہ ہو گا ۔‘ محمد بن عمرو بن عطا رحمہ اللہ فرماتے ہیں { میں نے اپنی لڑکی کا نام برہ رکھا تو مجھ سے زینب بنت ابوسلمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نام سے منع فرمایا ہے خود میرا نام بھی برہ تھا جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تم خود اپنی برتری اور پاکی آپ نہ بیان کرو تم میں سے نیکی والوں کا علم پورے طور پر اللہ ہی کو ہے ۔ “ لوگوں نے کہا : پھر ہم اس کا کیا نام رکھیں ؟ فرمایا : ” زینب نام رکھو “ } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2142) مسند احمد میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کسی ایک شخص کی بہت تعریفیں بیان کیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” افسوس تو نے اس کی گردن ماری ، کئی مرتبہ یہی فرما کر ارشاد فرمایا کہ اگر کسی کی تعریف ہی کرنی ہو تو یوں کہو ، میرا گمان فلاں کے بارے میں ایسا ہے حقیقی علم اللہ کو ہی ہے پھر اپنی معلومات بیان کرو خود کسی کی پاکیزگیاں بیان کرنے نہ بیٹھ جاؤ “ } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:2662) ابوداؤد اور مسلم میں ہے کہ { ایک شخص نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے سامنے ان کی تعریفیں بیان کرنا شروع کر دیں اس پر مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ اس کے منہ میں مٹی بھرنے لگے اور فرمایا : ” ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے کہ تعریفیں کرنے والوں کے منہ مٹی سے بھر دیں ۔“ } ۱؎ (صحیح مسلم:7431)