يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِّن قَوْمٍ عَسَىٰ أَن يَكُونُوا خَيْرًا مِّنْهُمْ وَلَا نِسَاءٌ مِّن نِّسَاءٍ عَسَىٰ أَن يَكُنَّ خَيْرًا مِّنْهُنَّ ۖ وَلَا تَلْمِزُوا أَنفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ ۖ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِيمَانِ ۚ وَمَن لَّمْ يَتُبْ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ
اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو ! نہ مرد دوسروں مردوں کا مذاق اڑائیں، ہوسکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں، اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں ہوسکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں، آپس میں ایک دوسرے پر طعن نہ کرو اور نہ ایک دوسرے کو برے القاب سے یاد کرو، ایمان لانے کے بعد نافرمانی کرنا بری بات ہے۔ جو لوگ اس روش سے باز نہیں آئیں گے وہ ظالم ہیں
ہر طعنہ باز عیب جو مجرم ہے اللہ تبارک و تعالیٰ لوگوں کو حقیر و ذلیل کرنے اور ان کا مذاق اڑانے سے روک رہا ہے ، حدیث شریف میں ہے { تکبر حق سے منہ موڑ لینے اور لوگوں کو ذلیل و خوار سمجھنے کا نام ہے } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:91) اس کی وجہ قرآن کریم نے یہ بیان فرمائی کہ ’ جسے تم ذلیل کر رہے ہو جس کا تم مذاق اڑا رہے ہو ممکن ہے کہ اللہ کے نزدیک وہ تم سے زیادہ باوقعت ہو ‘ ۔ مردوں کو منع کر کے پھر خاصتہً عورتوں کو بھی اس سے روکا اور اس ملعون خصلت کو حرام قرار دیا ، چنانچہ قرآن کریم کا ارشاد ہے «وَیْلٌ لِّکُلِّ ہُمَزَۃٍ لٰمَزَۃِ» ۱؎ (104-الہمزۃ:1) یعنی ’ ہر طعنہ باز عیب جو کے لیے خرابی ہے ‘ ۔ «ہُمَزَ» فعل سے ہوتا ہے اور «لٰمَزَۃِ» قول سے ۔ ایک اور آیت میں ہے «ہَمَّازٍ مَّشَّاءٍ بِنَمِیمٍ» ۱؎ (68-القلم:11) یعنی ’ وہ جو لوگوں کو حقیر گنتا ہو ۔ ‘ ان پر چڑھا چلا جا رہا ہو اور لگانے بجھانے والا ہو غرض ان تمام کاموں کو ہماری شریعت نے حرام قرار دیا ۔ یہاں لفظ تو یہ ہیں کہ اپنے آپ کو عیب نہ لگاؤ مطلب یہ ہے کہ آپس میں ایک دوسرے کو عیب نہ لگاؤ ، جیسے فرمایا : «وَلَا تَقْتُلُوا أَنفُسَکُمْ إِنَّ اللہَ کَانَ بِکُمْ رَحِیمًا» ۱؎ (4-النساء:29) یعنی ’ ایک دوسرے کو قتل نہ کرو یقیناً اللہ تعالیٰ تم پر نہایت مہربان ہے‘ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما ، مجاہد ، سعید بن جبیر ، قتادہ ، مقاتل بن حیان رحمہ اللہ علیہم فرماتے ہیں : اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک دوسرے کو طعنے نہ دے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:391/11:) پھر فرمایا کسی کو چڑاؤ مت ! جس لقب سے وہ ناراض ہوتا ہو اس لقب سے اسے نہ پکارو ، نہ اس کو برا نام دو ۔ مسند احمد میں ہے کہ { یہ حکم بنو سلمہ کے بارے میں نازل ہوا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینے میں آئے تو یہاں ہر شخص کے دو دو تین تین نام تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان میں سے کسی کو کسی نام سے پکارتے تو لوگ کہتے ، یا رسول اللہ ! یہ اس سے چڑتا ہے ۔ اس پر یہ آیت اتری } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:4962،قال الشیخ الألبانی:صحیح) پھر فرمان ہے کہ ’ ایمان کی حالت میں فاسقانہ القاب سے آپس میں ایک دوسرے کو نامزد کرنا نہایت بری بات ہے اب تمہیں اس سے توبہ کرنی چاہیئے ورنہ ظالم گنے جاؤ گے ‘ ۔