إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ ۚ أُولَٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
ملامت کے مستحق تو وہ ہیں جو دوسروں پر ظلم کرتے ہیں اور زمین میں ناحق زیادتیاں کرتے ہیں ایسے لوگوں کے لیے دردناک عذاب ہے
فسادیوں کے لئے دردناک عذاب چنانچہ صحیح حدیث میں ہے دو برا کہنے والے جو کچھ کہیں سب کا بوجھ شروع کرنے والے پر ہے جب کہ مظلوم بدلے کی حد سے آگے نہ نکل جائے ۔(صحیح مسلم:2587) ایسے فسادی قیامت کے دن درد ناک عذاب میں مبتلا کئے جائیں گے محمد بن واسع رحمہ اللہ فرماتے ہیں میں مکہ جانے لگا تو دیکھا کہ خندق پر پل بنا ہوا ہے میں ابھی وہیں تھا جو گرفتار کر لیا گیا اور امیر بصرہ مروان بن مہلب کے پاس پہنچا دیا گیا اس نے مجھ سے کہا ابوعبداللہ تم کیا چاہتے ہو ؟ میں نے کہا یہی کہ اگر تم سے ہو سکے تو بنو عدی کے بھائی جیسے بن جاؤ پوچھا وہ کون ہے ؟ کہا علا بن زیاد کہ اپنے ایک دوست کو ایک مرتبہ کسی صیغہ پر عامل بنایا تو انہوں نے اسے لکھا کہ حمد و صلوۃ کے بعد اگر تجھ سے ہو سکے تو یہ کرنا کہ تیری کمر بوجھ سے خالی رہے تیرا پیٹ حرام سے بچ جائے تیرے ہاتھ مسلمانوں کے خون و مال سے آلودہ نہ ہوں تو جب یہ کرے گا تو تجھ پر کوئی گناہ کی راہ باقی نہ رہے گی یہ راہ تو ان پر ہے جو لوگوں پر ظلم کریں اور بیوجہ ناحق زمین میں فساد پھیلائیں ۔ مروان نے کہا اللہ جانتا ہے اس نے سچ کہا اور خیر خواہی کی بات کہی ۔ اچھا اب کیا آرزو ہے ؟ فرمایا یہی کہ تم مجھے میرے گھر پہنچا دو مروان نے کہا بہت اچھا ۔ ( ابن ابی حاتم ) پس ظلم و اہل ظلم کی مذمت بیان کر کے بدلے کی اجازت دے کر اب افضیلت کی طرف رغبت دیتے ہوئے فرماتا ہے کہ جو ایذاء برداشت کر لے اور برائی سے درگذر کر لے اس نے بڑی بہادری سے کام کیا جس پر وہ بڑے ثواب اور پورے بدلے کا مستحق ہے ۔ حضرت فضیل بن عیاض رحمہ اللہ کا فرمان ہے کہ جب تم سے آ کر کوئی شخص کسی اور کی شکایت کرے تو اسے تلقین کرو کہ بھائی معاف کر دو معافی میں ہی بہتری ہے اور یہی پرہیزگاری کا ثبوت ہے اگر وہ نہ مانے اور اپنے دل کی کمزوری کا اظہار کرے تو خیر کہدو کہ جاؤ بدلہ لے لو لیکن اس صورت میں کہ پھر کہیں تم بڑھ نہ جاؤ ورنہ ہم تو اب بھی یہی کہیں گے کہ معاف کر دو یہ دروازہ بہت وسعت والا ہے اور بدلے کی راہ بہت تنگ ہے سنو معاف کر دینے والا تو آرام سے میٹھی نیند سو جاتا ہے اور بدلے کی دھن والا دن رات متفکر رہتا ہے ۔ اور توڑ جوڑ سوچتا ہے ۔ مسند امام احمد میں ہے کہ ایک شخص نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہنا شروع کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی وہیں تشریف فرما تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم تعجب کے ساتھ مسکرانے لگے صدیق رضی اللہ عنہ خاموش تھے لیکن جب کہ اس نے بہت گالیاں دیں تو آپ رضی اللہ عنہ نے بھی بعض کا جواب دیا ۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہو کر وہاں سے چل دئیے ۔سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے رہا نہ گیا آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ مجھے برا بھلا کہتا رہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے سنتے رہے اور جب میں نے اس کی دو ایک باتوں کا جواب دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ناراضگی سے اٹھ کے چلے آئے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سنو ! جب تک تم خاموش تھے فرشتہ تمہاری طرف سے جواب دیتا تھا جب تم آپ بولے تو فرشتہ ہٹ گیا اور شیطان بیچ میں آ گیا پھر بھلا میں شیطان کی موجودگی میں وہاں کیسے بیٹھا رہتا ؟ پھر فرمایا سنو ابوبکر رضی اللہ عنہ تین چیزیں بالکل حق ہیں ( ١ ) جس پر کوئی ظلم کیا جائے اور وہ اس سے چشم پوشی کر لے تو ضرور اللہ اسے عزت دے گا اور اس کی مدد کرے گا ( ٢ ) جو شخص سلوک اور احسان کا دروازہ کھولے گا اور صلہ رحمی کے ارادے سے لوگوں کو دیتا رہے گا اللہ اسے برکت دے گا اور زیادتی عطا فرمائے گا ( ٣ ) اور جو شخص مال بڑھانے کے لیے سوال کا دروازہ کھول لے گا اور دوسروں سے مانگتا پھرے گا اللہ اس کے ہاں بے برکتی کر دے گا اور کمی میں ہی وہ مبتلا رہے گا یہ روایت ابوداؤد میں بھی ہے اور مضمون کے اعتبار سے یہ بڑی پیاری حدیث ہے ۔(سنن ابوداود:4896،قال الشیخ الألبانی:حسن)