وَمَا تَفَرَّقُوا إِلَّا مِن بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ ۚ وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِن رَّبِّكَ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى لَّقُضِيَ بَيْنَهُمْ ۚ وَإِنَّ الَّذِينَ أُورِثُوا الْكِتَابَ مِن بَعْدِهِمْ لَفِي شَكٍّ مِّنْهُ مُرِيبٍ
لوگوں میں تفرقہ اس وقت پیدا ہوا جب ان کے پاس علم آچکا تھا وجہ یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے پر زیادتی کرنا چاہتے تھے۔ اگر تیرا رب پہلے ہی یہ نہ فرما چکا ہوتا کہ ایک مقرر وقت تک فیصلہ ملتوی رکھا جائے گا تو ان کا قضیہ چکا دیا گیا ہوتا۔ حقیقت یہ ہے کہ پہلے لوگوں کے بعد جو لوگ کتاب کے وارث بنائے گئے وہ اس کی طرف سے بڑے اضطراب انگیز شک میں پڑے ہوئے ہیں
آیت ۱۴ جب ان کے پاس حق آ گیا حجت ان پر قائم ہو چکی ۔ اس وقت وہ آپس میں ضد اور بحث کی بنا پر مختلف ہو گئے ۔ اگر قیامت کا دن حساب کتاب اور جزا سزا کے لیے مقرر شدہ نہ ہوتا تو ان کے ہر بد عمل کی سزا انہیں یہیں مل جایا کرتی ۔ پھر فرماتا ہے کہ یہ گزشتہ جو پہلوں سے کتابیں پائے ہوئے ہیں ۔ یہ صرف تقلیدی طور پر مانتے ہیں اور ظاہر ہے کہ مقلد کا ایمان شک شبہ سے خالی نہیں ہوتا ۔ انہیں خود یقین نہیں دلیل و حجت کی بناء پر ایمان نہیں ، بلکہ یہ اپنے پیشروؤں کے جو حق کے جھٹلانے والے تھے مقلد ہیں ۔