شَرَعَ لَكُم مِّنَ الدِّينِ مَا وَصَّىٰ بِهِ نُوحًا وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَىٰ وَعِيسَىٰ ۖ أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِيهِ ۚ كَبُرَ عَلَى الْمُشْرِكِينَ مَا تَدْعُوهُمْ إِلَيْهِ ۚ اللَّهُ يَجْتَبِي إِلَيْهِ مَن يَشَاءُ وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَن يُنِيبُ
اس نے تمہارے لیے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا ہے جس کا حکم اس نے نوح کو دیا تھا اور جسے ہم نے آپ کی طرف وحی کیا ہے اور جس کی ہدایت ہم ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ کو دے چکے ہیں اس تاکید کے ساتھ کہ دین کو قائم رکھو اور اس میں تفرقہ پیدا نہ کرو یہی بات مشرکین کو سخت ناگوار ہے جس کی طرف اے محمد تم انہیں دعوت دے رہے ہو، اللہ جسے چاہتا ہے چُن لیتا ہے اور وہ اپنی طرف آنے کا راستہ اسے دکھاتا ہے جو اس کی طرف رجوع کرتا ہے
امت محمدیہ پر شریعت الٰہی کا انعام اللہ تعالیٰ نے جو انعام اس امت پر کیا ہے اس کا ذکر یہاں فرماتا ہے کہ تمہارے لیے جو شرع مقرر کی ہے وہ ہے جو آدم کے بعد دنیا کے سب سے پہلے پیغمبر اور دنیا کے سب سے آخری پیغمبر اور ان کے درمیان کے اولو العزم پیغمبروں کی تھی ۔ پس یہاں جن پانچ پیغمبروں کا ذکر ہوا ہے انہی پانچ کا ذکر سورۃ الاحزاب میں بھی کیا گیا ہے فرمایا « وَاِذْ اَخَذْنَا مِنَ النَّـبِیّٖنَ مِیْثَاقَہُمْ وَمِنْکَ وَمِنْ نٰوْحٍ وَّاِبْرٰہِیْمَ وَمُوْسٰی وَعِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ ۠ وَاَخَذْنَا مِنْہُمْ مِّیْثَاقًا غَلِیْظًا» ( 33- الأحزاب : 7 ) ، وہ دین جو تمام انبیاء کا مشترک طور پر ہے وہ اللہ واحد کی عبادت ہے جیسے اللہ جل و علا کا فرمان ہے «وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِکَ مِن رَّسُولٍ إِلَّا نُوحِی إِلَیْہِ أَنَّہُ لَا إِلٰہَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِ » ( سورۃ الأنبیاء21 : 25 ) یعنی تجھ سے پہلے جتنے بھی رسول آئے ان سب کی طرف ہم نے یہی وحی کی ہے کہ معبود میرے سوا کوئی نہیں پس تم سب میری ہی عبادت کرتے رہو حدیث میں ہے ہم انبیاء کی جماعت آپس میں علاتی بھائیوں کی طرح ہیں ہم سب کا دین ایک ہی ہے جیسے علاتی بھائیوں کا باپ ایک ہوتا ہے ۔(صحیح بخاری:3442) الغرض احکام شرع میں گو جزوی اختلاف ہو ۔ لیکن اصولی طور پر دین ایک ہی ہے اور وہ توحید باری تعالیٰ ہے ، فرمان اللہ ہے «لِکُلٍّ جَعَلْنَا مِنْکُمْ شِرْعَۃً وَّمِنْہَاجًا » ( 5- المآئدہ : 48 ) تم میں سے ہر ایک کے لیے ہم نے شریعت و راہ بنا دی ہے ۔ یہاں اس وحی کی تفصیل یوں بیان ہو رہی ہے کہ دین کو قائم رکھو جماعت بندی کے ساتھ اتفاق سے رہو اختلاف اور پھوٹ نہ کرو پھر فرماتا ہے کہ یہی توحید کی صدائیں ان مشرکوں کو ناگوار گذرتی ہیں ۔ حق یہ ہے کہ ہدایت اللہ کے ہاتھ ہے جو مستحق ہدایت ہوتا ہے وہ رب کی طرف رجوع کرتا ہے اور اللہ اس کا ہاتھ تھام کر ہدایت کے راستے لا کھڑا کرتا ہے اور جو از خود برے راستے کو اختیار کر لیتا ہے اور صاف راہ چھوڑ دیتا ہے اللہ بھی اس کے ماتھے پر ضلالت لکھ دیتا ہے ۔