يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِن قَبْلِ أَن تَمَسُّوهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّونَهَا ۖ فَمَتِّعُوهُنَّ وَسَرِّحُوهُنَّ سَرَاحًا جَمِيلًا
اے لوگو جو ایمان لائے ہو جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو اور پھر انہیں ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دے دو تو تمہاری طرف سے ان پر کوئی عدّت نہیں ہے جسے تم شمار کرتے ہو انہیں کچھ مال دو اور بہتر طریقے سے رخصت کر دو
نکاح کی حقیقت اس آیت میں بہت سے احکام ہیں ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف عقد پر بھی نکاح کا اطلاق ہوتا ہے ۔ اس کے ثبوت میں اس سے زیادہ صراحت والی آیت اور نہیں ۔ اس میں اختلاف ہے کہ لفظ نکاح حقیقت میں صرف ایجاب وقبول کے لیے ہے ؟ یا صرف جماع کے لیے ہے ؟ یا ان دونوں کے مجموعے کے لیے ؟ قرآن کریم میں اس کا اطلاق عقد و وطی دونوں پر ہی ہوا ہے ۔ لیکن اس آیت میں صرف عقد پر ہی اطلاق ہے ۔ اس آیت سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ دخول سے پہلے بھی خاوند اپنی بیوی کو طلاق دے سکتا ہے ۔ مومنات کا ذکر یہاں پر بوجہ غلبہ کے ہے ورنہ حکم کتابیہ عورت کا بھی یہی ہے ۔ سلف کی ایک بڑی جماعت نے اس آیت سے استدلال کر کے کہا ہے کہ طلاق اسی وقت واقع ہوتی ہے جب اس سے پہلے نکاح ہو گیا ہو اس آیت میں نکاح کے بعد طلاق کو فرمایا ہے ۔ پس معلوم ہوا ہے کہ نکاح سے پہلے نہ طلاق صحیح ہے نہ وہ واقع ہوتی ہے ۔ امام شافعی اور امام احمد رحمہ اللہ علیہم اور بہت بڑی جماعت سلف و خلف کا یہی مذہب ہے ۔ مالک اور ابو حنفیہ رحمہ اللہ علیہم کا خیال ہے کہ نکاح سے پہلے بھی طلاق درست ہو جاتی ہے ۔ مثلاً کسی نے کہا کہ اگر میں فلاں عورت سے نکاح کروں تو اس پر طلاق ہے ۔ تو اب جب بھی اس سے نکاح کرے گا طلاق پڑ جائے گی ۔ پھر مالک اور ابوحنیفہ رحمہ اللہ علیہم میں اس شخص کے بارے میں اختلاف ہے جو کہے کہ جس عورت سے میں نکاح کروں اس پر طلاق ہے تو امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کہتے ہیں پس وہ جس سے نکاح کرے گا اس پر طلاق پڑ جائے گی اور امام مالک رحمہ اللہ کا قول ہے کہ نہیں پڑے گی کیونکہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ ” اگر کسی شخص نے نکاح سے پہلے یہ کہا ہو کہ میں جس عورت سے نکاح کروں اس پر طلاق ہے تو کیا حکم ہے ؟ “ آپ رضی اللہ عنہ نے یہ آیت تلاوت کی اور فرمایا ” اس عورت کو طلاق نہیں ہو گی ۔ کیونکہ اللہ عزوجل نے طلاق کو نکاح کے بعد فرمایا ہے “ ۔ پس نکاح سے پہلے کی طلاق کوئی چیز نہیں ۔ مسند احمد ابوداؤد ترمذی ابن ماجہ میں ہے { رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { ابن آدم جس کا مالک نہ ہو اس میں طلاق نہیں } } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:2190،قال الشیخ الألبانی:حسن) اور حدیث میں ہے { جو طلاق نکاح سے پہلے کی ہو وہ کسی شمار میں نہیں } ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:2048،قال الشیخ الألبانی:حسن صحیح) پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’ جب تم عورتوں کو نکاح کے بعد ہاتھ لگانے سے پہلے ہی طلاق دے دو تو ان پر کوئی عدت نہیں بلکہ وہ جس سے چاہیں اسی وقت نکاح کر سکتی ہیں ‘ ۔ ہاں اگر ایسی حالت میں ان کا خاوند فوت ہو گیا ہو تو یہ حکم نہیں اسے چار ماہ دس دن کی عدت گزارنی پڑے گی ۔ علماء کا اس پر اتفاق ہے ۔ پس نکاح کے بعد ہی میاں نے بیوی کو اس سے پہلے ہی اگر طلاق دے دی ہے تو اگر مہر مقرر ہو چکا ہے تو اس کا آدھا دینا پڑے گا ۔ ورنہ تھوڑا بہت دے دینا کافی ہے ۔ اور آیت میں ہے «وَإِن طَلَّقْتُمُوہُنَّ مِن قَبْلِ أَن تَمَسٰوہُنَّ وَقَدْ فَرَضْتُمْ لَہُنَّ فَرِیضَۃً فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُمْ إِلَّا أَن یَعْفُونَ أَوْ یَعْفُوَ الَّذِی بِیَدِہِ عُقْدَۃُ النِّکَاحِ وَأَن تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوَیٰ وَلَا تَنسَوُا الْفَضْلَ بَیْنَکُمْ إِنَّ اللہَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِیرٌ» ۱؎ (2-البقرۃ:237) یعنی ’ اگر مہر مقرر ہو چکا ہے اور ہاتھ لگانے سے پہلے ہی طلاق دے دی تو آدھے مہر کی وہ مستحق ہے ‘ ۔ اور آیت میں ارشاد ہے «لَاجُنَاحَ عَلَیْکُمْ اِنْ طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ مَالَمْ تَمَسٰوْھُنَّ اَوْ تَفْرِضُوْا لَھُنَّ فَرِیْضَۃً ښ وَّمَتِّعُوْھُنَّ عَلَی الْمُوْسِعِ قَدَرُہٗ وَعَلَی الْمُقْتِرِ قَدَرُہٗ مَتَاعًا بالْمَعْرُوْفِ حَقًّا عَلَی الْمُحْسِـنِیْنَ» ۱؎ (2-البقرۃ:236) ، یعنی ’ اگر تم اپنی بیویوں کو ہاتھ لگانے سے پہلے ہی طلاق دے دو تو یہ کچھ گناہ کی بات نہیں ۔ اگر ان کا مہر مقرر نہ ہوا ہو تو تم انہیں کچھ نہ کچھ دے دو ‘ ۔ اپنی اپنی طاقت کے مطابق ، امیر و غریب دستور کے مطابق ان سے سلوک کریں اور بھلے لوگوں پر یہ ضروری ہے ۔ چنانچہ ایسا ایک واقعہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی گزرا کہ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امیمہ بنت شرجیل سے نکاح کیا یہ رخصت ہو کر آ گئیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم گئے ہاتھ بڑھایا تو گویا اس نے اسے پسند نہ کیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابواسید کو حکم دیا کہ ان کا سامان تیار کر دیں اور دو کپڑے ارزقیہ کے انہیں دے دیں } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:5256) پس «سَرَاحًا جَمِیلًا» یعنی اچھائی سے رخصت کر دینا یہی ہے کہ اس صورت میں اگر مہر مقرر ہے تو آدھا دیدے ۔ اور اگر مقرر نہیں تو اپنی طاقت کے مطابق اس کے ساتھ کچھ سلوک کر دے ۔