الَّذِينَ يُبَلِّغُونَ رِسَالَاتِ اللَّهِ وَيَخْشَوْنَهُ وَلَا يَخْشَوْنَ أَحَدًا إِلَّا اللَّهَ ۗ وَكَفَىٰ بِاللَّهِ حَسِيبًا
یہ ان لوگوں کے لیے اللہ کا طریقہ ہے جو اللہ کے پیغامات پہنچاتے ہیں اور اسی سے ڈرتے ہیں اور ” اللہ“ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے اور محاسبہ کرنے کے لیے بس اللہ ہی کافی ہے
امی خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم ان کی تعریف ہو رہی ہے جو اللہ کی مخلوق کو اللہ کے پیغام پہنچاتے ہیں اور امانت اللہ کی ادائیگی کرتے ہیں اور اس سے ڈرتے رہتے ہیں اور سوائے اللہ کے کسی کا خوف نہیں کرتے ، کسی کی سطوت و شان سے مرعوب ہو کر پیغام اللہ کا پہنچانے میں خوف نہیں کھاتے ۔ اللہ تعالیٰ کی نصرت و امداد کافی ہے ۔ اس منصب کی ادائیگی میں سب کے پیشوا بلکہ ہر اک امر میں سب کے سردار محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ خیال فرمائیے کہ مشرق و مغرب کے ہر ایک بنی آدم کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے دین کی تبلیغ کی ۔ اور جب تک اللہ کا دین چار دانگ عالم میں پھیل نہ گیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسلسل مشقت کے ساتھ اللہ کے دین کی اشاعت میں مصروف رہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے تمام انبیاء علیہم السلام اپنی اپنی قوم ہی کی طرف آتے رہے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ساری دنیا کی طرف اللہ کے رسول بن کر آئے تھے ۔ قرآن میں فرمان الٰہی ہے کہ «قُلْ یَا أَیٰہَا النَّاسُ إِنِّی رَسُولُ اللہِ إِلَیْکُمْ جَمِیعًا» ۱؎ (7-الأعراف:158) ’ لوگوں میں اعلان کر دو کہ میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں ‘ «سَلَامٌ عَلَیْہِ» ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد منصب تبلیغ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو ملا ۔ ان میں سب کے سردار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ ہیں رضوان اللہ علیہم ۔ جو کچھ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھا تھا ، سب کچھ بعد والوں کو سکھا دیا ۔ تمام اقوال و افعال جو احوال دن اور رات کے ، سفر و حضر کے ، ظاہر و پوشیدہ دنیا کے سامنے رکھ دئیے ۔ اللہ ان پر اپنی رضا مندی نازل فرمائے ۔ پھر ان کے بعد والے ان کے وارث ہوئے اور اسی طرح پھر بعد والے اپنے سے پہلے والوں کے وارث بنے اور اللہ کا دین ان سے پھیلتا رہا ۔ اور قرآن و حدیث لوگوں تک پہنچتے رہے ہدایت والے ان کی اقتداء سے منور ہوتے رہے اور توفیق خیر والے ان کے مسلک پر چلتے رہے ۔ اللہ کریم سے ہماری دعا ہے کہ وہ ہمیں بھی ان میں سے کر دے ۔ مسند احمد میں ہے { تم میں سے کوئی اپنا آپ ذلیل نہ کرے ۔ لوگوں نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ کیسے ! فرمایا : { خلاف شرع کام دیکھ کر ، لوگوں کے خوف کے مارے خاموش ہو رہے ۔ قیامت کے دن اس سے بازپرس ہوگی کہ ” تو کیوں خاموش رہا ؟ “ یہ کہے گا کہ ” لوگوں کے ڈر سے “ ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ’ سب سے زیادہ خوف رکھنے کے قابل تو میری ذات تھی ‘ } } ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:4008 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) پھر اللہ تعالیٰ منع فرماتا ہے کہ ’ کسی کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا صاحبزادہ کہا جائے ‘ ۔ لوگ جو زید بن محمد کہتے تھے جس کا بیان اوپر گزر چکا ہے ۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم زید کے والد نہیں ‘ ۔ یہی ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی نرینہ اولاد بلوغت کو پہنچی ہی نہیں ۔ قاسم ، طیب اور طاہر تین بچے خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے ، ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا سے ایک بچہ ہوا جس کا نام ابراہیم لیکن یہ بھی دودھ پلانے کے زمانے میں ہی انتقال کر گئے ۔ آپ کی لڑکیاں خدیجہ سے چار تھیں زینب ، رقیہ ، ام کلثوم اور فاطمہ رضی اللہ عنہم اجمعین ان میں سے تین تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی رحلت فرما گئیں صرف فاطمہ رضی اللہ عنہا کا انتقال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چھ ماہ بعد ہوا ۔ پھر فرماتا ہے ’ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول اور خاتم الانبیاء ہیں ‘ ۔ جیسے فرمایا « اللہُ أَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہُ» ۱؎ (6-الأنعام:124) ’ اللہ خوب جانتا ہے جہاں اپنی رسالت رکھتا ہے ‘ ۔ یہ آیت نص ہے اس امر پر کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں ۔ اور جب نبی ہی نہیں تو رسول کہاں ؟ کوئی نبی ، رسول آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہیں آئے گا ۔ رسالت تو نبوت سے بھی خاص چیز ہے ۔ ہر رسول نبی ہے لیکن ہر نبی رسول نہیں ۔ متواتر احادیث سے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ختم الانبیاء ہونا ثابت ہے ۔ بہت سے صحابہ سے یہ حدیثیں روایت کی گئی ہیں ۔ مسند احمد میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { میری مثال نبیوں میں ایسی ہے جیسے کسی شخص نے ایک بہت اچھا اور پورا مکان بنایا لیکن اس میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی جہاں کچھ نہ رکھا لوگ اسے چاروں طرف سے دیکھتے بھالتے اور اس کی بناوٹ سے خوش ہوتے لیکن کہتے کیا اچھا ہو تاکہ اس اینٹ کی جگہ پُر کر لی جاتی ۔ پس میں نبیوں میں اسی اینٹ کی جگہ ہوں } } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3613 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) امام ترمذی بھی اس حدیث کو لائے ہیں اور اسے حسن صحیح کہا ہے ۔ مسند احمد میں ہے { رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { رسالت اور نبوت ختم ہوگئی ، میرے بعد نہ کوئی رسول ہے نہ نبی } ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم پر یہ بات گراں گزری تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { لیکن خوش خبریاں دینے والے } ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا خوشخبریاں دینے والے کیا ہیں ۔ فرمایا : { مسلمانوں کے خواب جو نبوت کے اجزأ میں سے ایک جز ہیں } } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:2272 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) یہ حدیث بھی ترمذی شریف میں ہے اور امام ترمذی اسے صحیح غریب کہتے ہیں ۔ محل کی مثال والی حدیث ابوداؤد طیالسی میں بھی ہے ۔ اس کے آخر میں یہ ہے کہ { میں اس اینٹ کی جگہ ہوں مجھ سے انبیاء علیہم الصلوۃ السلام ختم کئے گئے } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3534) اسے بخاری ، مسلم اور ترمذی بھی لائے ہیں ۔ مسند کی اس حدیث کی ایک سند میں ہے کہ { میں آیا اور میں نے اس خالی اینٹ کی جگہ پر کر دی } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2286) مسند میں ہے { { میرے بعد نبوت نہیں مگر خوشخبری والے } ۔ پوچھا گیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ کیا ہیں ؟ فرمایا : { اچھے خواب } یا فرمایا : { نیک خواب } } ۔ ۱؎ (مسند احمد:454/5:صحیح) عبدالرزاق وغیرہ میں محل کی اینٹ کی مثال والی حدیث میں ہے کہ { لوگ اسے دیکھ کر محل والے سے کہتے ہیں کہ تو نے اس اینٹ کی جگہ کیوں چھوڑ دی ؟ پس میں وہ اینٹ ہوں } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3535) صحیح مسلم شریف میں ہے { رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { مجھے تمام انبیاء پر چھ فضیلتیں دی گئی ہیں ، مجھے جامع کلمات عطا فرمائے گئے ہیں ۔ صرف رعب سے میری مدد کی گئی ہے ۔ میرے لیے غنیمت کا مال حلال کیا گیا ۔ میرے لیے ساری زمین مسجد اور وضو بنائی گئی ، میں ساری مخلوق کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں ۔ اور میرے ساتھ نبیوں کو ختم کر دیا گیا } } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:523) یہ حدیث ترمذی میں بھی ہے اور امام ترمذی اسے حسن صحیح کہتے ہیں ۔ صحیح مسلم وغیرہ میں محل مثال والی روایت میں یہ الفاظ بھی آئے ہیں کہ { میں آیا اور میں نے اس اینٹ کی جگہ پوری کر دی } ۔ مسند میں ہے { میں اللہ کے نزدیک نبیوں کا علم کرنے والا تھا اس وقت جبکہ آدم علیہ السلام پوری طور پر پیدا بھی نہیں ہوئے تھے } ۔ ۱؎ (مسند احمد:127/4:صحیح) اور حدیث میں ہے { میرے کئی نام ہیں ، میں محمد ہوں اور میں احمد ہوں اور میں ماحی ہوں اللہ تعالیٰ میری وجہ سے کفر کو مٹا دے گا اور میں حاشر ہوں تمام لوگوں کا حشر میرے قدموں تلے ہو گا اور میں عاقب ہوں جس کے بعد کوئی نبی نہیں } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3532) عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں { ایک روز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آئے گویا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رخصت کر رہے ہیں اور تین مرتبہ فرمایا : { میں امی نبی ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں ۔ میں فاتح کلمات دیا گیا ہوں جو نہایت جامع اور پورے ہیں ۔ میں جانتا ہوں کہ جہنم کے داروغے کتنے ہیں اور عرش کے اٹھانے والے کتنے ہیں ۔ میرا اپنی امت سے تعارف کرایا گیا ہے ۔ جب تک میں تم میں ہوں میری سنتے رہو اور مانتے چلے جاؤ ۔ جب میں رخصت ہو جاؤں تو کتاب اللہ کو مضبوط تھام لو اس کے حلال کو حلال اور اس کے حرام کو حرام سمجھو } } ۔ ۱؎ (مسند احمد:172/2:ضعیف) اس بارے میں اور بھی بہت سی حدیثیں ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی اس وسیع رحمت پر اس کا شکر کرنا چاہیئے کہ اس نے اپنے رحم و کرم سے ایسے عظیم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ہماری طرف بھیجا اور انہیں ختم المرسلین اور خاتم الانبیاء بنایا اور یکسوئی والا ، آسان ، سچا اور سہل دین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں کمال کو پہنچایا ۔ رب العالمین نے اپنی کتاب میں اور رحمتہ للعالمین نے اپنی متواتر احادیث میں یہ خبر دی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں ۔ پس جو شخص بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت یا رسالت کا دعویٰ کرے وہ جھوٹا ، مفتری ، دجال ، گمراہ اور گمراہ کرنے والا ہے ۔ گو وہ شعبدے دکھائے اور جادوگری کرے اور بڑے کمالات اور عقل کو حیران کر دینے والی چیزیں پیش کرے اور طرح طرح کی بے رنگ یاں دکھائے لیکن عقلمند جانتے ہیں کہ یہ سب فریب دھوکہ اور مکاری ہے ۔ یمن کے مدعی نبوت عنسی اور یمانہ کے مدعی نبوت مسیلمہ کذاب کو دیکھ لو کہ دنیا نے انہیں جیسے یہ تھے سمجھ لیا اور ان کی اصلیت سب پر ظاہر ہو گئ ۔ یہی حال ہو گا ہر اس شخص کا جو قیامت تک اس دعوے سے مخلوق کے سامنے آئے گا کہ اس کا جھوٹ اور اس کی گمراہی سب پر کھل جائے گی ۔ یہاں تک کہ سب سے آخری دجال مسیح آئے گا ۔ اس کی علامتوں سے بھی ہر عالم اور ہر مومن اس کا کذاب ہونا جان لے گا پس یہ بھی اللہ کی ایک نعمت ہے کہ ایسے جھوٹے دعوے داروں کو یہ نصیب ہی نہیں ہوتا کہ وہ نیکی کے احکام دیں اور برائی سے روکیں ۔ ہاں جن احکام میں ان کا اپنا کوئی مقصد ہوتا ہے ان پر بہت زورر دیتے ہیں ۔ ان کے اقوال ، افعال افترا اور فجور والے ہوتے ۔ جیسے فرمان باری ہے ۔ «ہَلْ أُنَبِّئُکُمْ عَلَی مَنْ تَنَزَّلُ الشَّیَاطِینُ تَنَزَّلُ عَلَی کُلِّ أَفَّاکٍ أَثِیمٍ» ۱؎ (26-الشعراء:222-221) الخ ، یعنی ’ کیا میں تمہیں بتاؤں کہ شیاطن کن کے پاس آتے ہیں ؟ ہر ایک بہتان باز گنہگار کے پاس ‘ ۔ سچے نبیوں کا حال اس کے بالکل برعکس ہوتا ہے وہ نہایت نیکی والے ، بہت سچے ہدایت والے ، استقامت والے ، قول و فعل کے اچھے ، نیکیوں کا حکم دینے والے ، برائیوں سے روکنے والے ہوتے ہیں ۔ ساتھ ہی اللہ کی طرف سے ان کی تائید ہوتی ہے ۔ معجزوں سے اور خارق عادت چیزوں سے ان کی سچائی اور زیادہ ظاہر ہوتی ہے ۔ اور اس قدر ظاہر واضح اور صاف دلیلیں ان کی نبوت پر ہوتی ہیں کہ ہر قلب سلیم ان کے ماننے پر مجبور ہو جاتا ہے اللہ تعالیٰ اپنے تمام سچے نبیوں پر قیامت تک درود سلام نازل فرماتا رہے ۔