وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَٰذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا
” اور رسول کہے گا کہ اے میرے رب میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ دیا تھا۔“ (٣٠)
شکایت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم قیامت والے دن اللہ کے سچے رسول نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کی شکایت جناب باری تعالیٰ میں کریں گے کہ نہ یہ لوگ قرآن کی طرف مائل تھے ، نہ رغبت سے قبولیت کے ساتھ سنتے تھے بلکہ اوروں کو بھی اس کے سننے سے روکتے تھے ۔ جیسے کہ کفار کا مقولہ خود قرآن میں ہے کہ وہ کہتے تھے «وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَا تَسْمَعُوْا لِھٰذَا الْقُرْاٰنِ وَالْـغَوْا فِیْہِ لَعَلَّکُمْ تَغْلِبُوْنَ» ۱؎ (41-فصلت:26) ’ اس قرآن کو نہ سنو اور اس کے پڑھے جانے کے وقت شور و غل کرو ۔ ‘ یہی اس کا چھوڑ رکھنا تھا ۔ نہ اس پر ایمان لاتے تھے ، نہ اسے سچا جانتے تھے ، نہ اس پر غور و فکر کرتے تھے ، نہ ہی اسے سمجھنے کی کوشش کرتے تھے ۔ نہ اس پر عمل تھا ، نہ اس کے احکام کو بجا لاتے تھے ، نہ اس کے منع کردہ کاموں سے رکتے تھے بلکہ اس کے سوا اور کاموں میں مشغول و منہمک رہتے تھے جیسے شعر ، اشعار ، غزلیات ، باجے ، گانے ، راگ ، راگنیاں ، اسی طرح اور لوگوں کے کلام سے دلچسپی لیتے تھے اور ان پر عامل تھے ، یہی اسے چھوڑ دینا تھا ۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ کریم و منان ، جو ہر چیز پر قادر ہے ، ہمیں توفیق دے کہ ہم اس کے ناپسندیدہ کاموں سے دست بردار ہو جائیں اور اس کے پسندیدہ کاموں کی طرف جھک جائیں ۔ وہ ہمیں اپنے کلام کی سمجھ دے اور دن رات اس پر عمل کرنے کی ہدایت دے ، جس سے وہ خوش ہو ۔ وہ کریم و وہاب ہے ۔ پھر فرمایا : جس طرح اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ کی قوم میں قرآن کو نظر انداز کر دینے والے لوگ ہیں ۔ اسی طرح اگلی امتوں میں بھی ایسے لوگ تھے جو خود کفر کر کے دوسروں کو اپنے کفر میں شریک کار کرتے تھے اور اپنی گمراہی کے پھیلانے کی فکر میں لگے رہتے تھے ۔ جیسے فرمان ہے «وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا شَـیٰطِیْنَ الْاِنْسِ وَالْجِنِّ یُوْحِیْ بَعْضُہُمْ اِلٰی بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْرًا وَلَوْ شَاءَ رَبٰکَ مَا فَعَلُوْہُ فَذَرْہُمْ وَمَا یَفْتَرُوْنَ» ۱؎ (6-الأنعام:112) یعنی ’ اسی طرح ہم نے ہر نبی کے دشمن شیاطین و انسان بنا دئیے ہیں ۔ ‘ پھر فرمایا : جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری کرے ، کتاب اللہ پر ایمان لائے ، اللہ کی وحی پر یقین کرے ، اس کا ہادی اور ناصر خود اللہ تعالیٰ ہے ۔ مشرکوں کی جو خصلت اوپر بیان ہوئی ، اس سے ان کی غرض یہ تھی کہ لوگوں کو ہدایت پر نہ آنے دیں اور آپ مسلمانوں پر غالب رہیں ۔ اس لیے قرآن نے فیصلہ کیا کہ یہ نامراد ہی رہیں گے ۔ اللہ اپنے نیک بندوں کو خود ہدایت کرے گا اور مسلمان کی خود مدد کرے گا ۔ یہ معاملہ اور ایسوں کا مقابلہ کچھ تجھ سے ہی نہیں ، تمام اگلے نبیوں کے ساتھ یہی ہوتا رہا ہے ۔