سورة المؤمنون - آیت 101

فَإِذَا نُفِخَ فِي الصُّورِ فَلَا أَنسَابَ بَيْنَهُمْ يَوْمَئِذٍ وَلَا يَتَسَاءَلُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

پھرجونہی صور پھونک دیا گیا۔ ان کے درمیان پھر کوئی رشتہ نہ رہے گا اور نہ وہ ایک دوسرے سے کچھ پوچھ سکیں گے۔“ (١٠١)

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

قبروں سے اٹھنے کے بعد جب جی اٹھنے کا صور پھونکا جائے گا اور لوگ اپنی قبروں سے زندہ ہو کر اٹھ کھڑے ہوں گے ، اس دن نہ تو کوئی رشتے ناتے باقی رہیں گے ۔ نہ کوئی کسی سے پوچھے گا ، نہ باپ کو اولاد پرشفقت ہو گی ، نہ اولاد باپ کا غم کھائے گی ۔ عجب آپا دھاپی ہو گی ۔ جیسے فرمان ہے کہ «وَلَا یَسْأَلُ حَمِیمٌ حَمِیمًا یُبَصَّرُونَہُمْ یَوَدٰ الْمُجْرِمُ لَوْ یَفْتَدِی مِنْ عَذَابِ یَوْمِئِذٍ بِبَنِیہِ» ( 70-المعارج : 10 ، 11 ) کوئی دوست کسی دوست سے ایک دوسرے کو دیکھنے کے باوجود کچھ نہ پوچھے گا ۔ صاف دیکھے گا کہ قریبی شخص ہے مصیبت میں ہے ، گناہوں کے بوجھ سے دب رہا ہے لیکن اس کی طرف التفات تک نہ کرے گا ، نہ کچھ پوچھے گا آنکھ پھیرلے گا ، جیسے قرآن میں ہے کہ «یَوْمَ یَفِرٰ الْمَرْءُ مِنْ أَخِیہِ وَأُمِّہِ وَأَبِیہِ وَصَاحِبَتِہِ وَبَنِیہِ لِکُلِّ امْرِئٍ مِّنْہُمْ یَوْمَئِذٍ شَأْنٌ یُغْنِیہِ» ( 80-عبس : 34- 37 ) اس دن آدمی اپنے بھائی سے ، اپنی ماں سے ، اپنے باپ سے ، اپنی بیوی سے ، اور اپنے بچوں سے بھاگتا پھرے گا“ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اگلوں پچھلوں کو جمع کرے گا پھر ایک منادی ندا کرے گا جس کسی کا کوئی حق کسی دوسرے کے ذمہ ہو وہ بھی آئے اور اس سے اپنا حق لے جائے ۔ تو اگرچہ کسی کا کوئی حق باپ کے ذمہ یا اپنی اولاد کے ذمہ یا اپنی بیوی کے ذمہ ہو وہ بھی خوش ہوتا ہوا اور دوڑتا ہوا آئے گا اور اپنے حق کے تقاضے شروع کرے گا جسے اس آیت «فَإِذَا نُفِخَ فِی الصٰورِ فَلَا أَنسَابَ بَیْنَہُمْ یَوْمَئِذٍ وَلَا یَتَسَاءَلُونَ» ( سورۃ المؤمنون-23 : 101 ) میں ہے ۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ” فاطمہ رضی اللہ عنہا میرے جسم کا ایک ٹکڑا ہے جو چیز اسے نہ خوش کرے وہ مجھے بھی ناخوش کرتی ہے اور جو چیز اسے خوش کرے وہ مجھے بھی خوش کرتی ہے قیامت کے روز سب رشتے ناتے ٹوٹ جائیں گے لیکن میرا نسب میرا سبب میری رشتہ داری نا ٹوٹے گی“(مسند احمد:323/4:صحیح) اس حدیث کی اصل بخاری مسلم میں بھی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”فاطمہ رضی اللہ عنہا میرے جسم کا ایک ٹکڑا ہے اسے ناراض کرنے والی اور اسے ستانے والی چیزیں مجھے ناراض کرنے والی اور مجھے تکلیف پہنچانے والی ہے “ ۔(صحیح بخاری:3714) رضی اللہ عنہا مسند احمد میں ہے رسول اللہ علیہ وسلم نے منبر پر فرمایا ”لوگوں کا کیا حال ہے کہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رشتہ بھی آپ کی قوم کو کوئی فائدہ نہ دے گا واللہ میرے رشتہ دنیا میں اور آخرت میں ملا ہوا ہے ۔ اے لوگو ! میں تمہارا میرسامان ہوں ، جب تم آؤ گے ، ایک شخص کہے گا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں فلاں بن فلاں ہوں ، میں جواب دونگا کہ ہاں نسب تو میں نے پہچان لیا لیکن تم لوگوں نے میرے بعد بدعتیں ایجاد کی تھیں اور ایڑیوں کے بل مرتد ہو گے تھے“ ۔ (مسند احمد:18/3:حسن لغیرہ) مسند امیر المؤمنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما میں ہم نے کئی سندوں سے یہ روایت کی ہے کہ جب آپ نے ام کلثوم بنت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا تو فرمایا کرتے تھے واللہ مجھے اس نکاح سے صرف یہ غرض تھی کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ ہر سبب ونسب قیامت کے دن کٹ جائے گا مگر میرا نسب اور سبب ۔ (مسند عمر بن الخطاب لابن کثیر 398/3) بھی مذکور ہے کہ آپ نے ان کا مہر از روئے تعظیم وبزرگی چالیس ہزار مقرر کیا تھا ۔ ابن عساکر میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”کل رشتے ناتے اور سسرالی تعلقات بجز میرے ایسے تعلقات کے قیامت کے دن کٹ جائیں گے “ ۔ (طبرانی کبیر:45/3:صحیح بالشواھد) ایک حدیث میں ہے کہ ”میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ جہاں میرا نکاح ہوا ہے اور جس کا نکاح میرے ساتھ ہوا ہے وہ سب جنت میں بھی میرے ساتھ رہیں تو اللہ تعالیٰ نے میری دعا قبول فرمائی“ ۔ (تاریخ دمشق 119/19:ضعیف) جس کی ایک نیکی بھی گناہوں سے بڑھ گئی وہ کامیاب ہو گیا جہنم سے آزاد اور جنت میں داخل ہو گیا اپنی مراد کو پہنچ گیا اور جس سے ڈرتا تھا اس سے بچ گیا ۔ اور جس کی برائیاں بھلائیوں سے بڑھ گئیں وہ ہلاک ہوئے نقصان میں آ گئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں” قیامت کے دن ترازو پر ایک فرشتہ مقرر ہو گا جو ہر انسان کو لا کر ترازو کے پاس بیچوں بیچ کھڑا کرے گا ، پھر نیکی بدی تولی جائے گی اگر نیکی بڑھ گئی تو باآواز بلند اعلان کرے گا کہ فلاں بن فلاں نجات پا گیا اب اس کے بعد ہلاکت اس کے پاس بھی نہیں آئے گی اور اگر بدی بڑھ گئی تو ندا کرے گا اور سب کو سنا کر کہے گا کہ فلاں کا بیٹا فلاں ہلاک ہوا اب وہ بھلائی سے محروم ہوگیا“ (ابو نعیم فی الحلیۃ کما فی تخریج الاحیاء:4098،ضعیف) اس کی سند ضعیف ہے داؤد ابن حجر راوی ضعیف و متروک ہے ۔ ایسے لوگ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے دوزخ کی آگ ان کے منہ جھلس دے گی چہروں کو جلادے گی کمر کو سلگا دے گی یہ بے بس ہوں گے آگ کو ہٹا نہ سکیں گے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں” پہلے ہی شعلے کی لپٹ ان کا سارے گوشت پوست ہڈیوں سے الگ کر کے ان کے قدموں میں ڈال دے گی وہ وہاں بدشکل ہوں گے دانت نکلے ہوں گے ہونٹ اوپر چڑھا ہوا اور نیچے گرا ہوا ہو گا اوپر کا ہونٹ تو تالو تک پہنچا ہوا ہو گا اور نیچے کا ہونٹ ناف تک آ جائے گا “ ۔ (مسند احمد:88/3:ضعیف)